Wednesday, 26 June 2013

ہجرت کا پہلا سال

اذان کی ابتداء

مسجد نبوی کی تعمیر تو مکمل ہو گئی مگر لوگوں کو نمازوں کے وقت جمع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے نماز با جماعت کا انتظام ہوتا، اس سلسلہ میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا، بعض نے نمازوں کے وقت آگ جلانے کا مشورہ دیا، بعض نے ناقوس بجانے کی رائے دی مگر حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ان طریقوں کو پسند نہیں فرمایا۔

حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہر نماز کے وقت کسی آدمی کو بھیج دیا جائے جو پوری مسلم آبادی میں نماز کا اعلان کردے۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت بلال رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ وہ نمازوں کے وقت لوگوں کو پکار دیا کریں۔ چنانچہ وہ ’’الصلوٰۃُ جامعۃٌ‘‘ کہہ کر پانچوں نمازوں کے وقت اعلان کرتے تھے، اسی درمیان میں ایک صحابی حضرت عبدﷲ بن زید انصاری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اذان شرعی کے الفاظ کوئی سنا رہا ہے۔ اس کے بعد حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کو بھی اسی قسم کے خواب نظرآئے۔
حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو منجانب ﷲ سمجھ کر قبول فرمایا اور حضرت عبدﷲ بن زید رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ تم بلال کو اذان کے کلمات سکھا دو کیونکہ وہ تم سے زیادہ بلند آواز ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے شرعی اذان کا طریقہ جو آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا شروع ہو گیا۔
(زرقانی، ج۲، ص۳۷۶ و بخاری)

0 comments:

Post a Comment