Tuesday, 11 June 2013

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن کے لیے وزیر مملکت مقرر کی گئی انوشہ رحمٰن نے عہدے پر پہلے ہی دن ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کر لی جب انہوں نے کہا کہ اگر گوگل نے یوٹیوب پر موجود گستاخانہ وڈیوز ہٹانے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی درخواست پر غور نہ کیا تو گوگل پر مکمل پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
گزشتہ دور حکومت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی متحرک رکن رہنے والی انوشہ رحمٰن نے گوگل کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان حکومت یوٹیوب کی مالک کمپنی گگل سے مطالبہ کرے گی کہ وہ پاکستان میں گستاخانہ وڈیوز تک رسائی کو بند کردے، بالکل اسی طرح جیسا اس نے متعدد دیگر ممالک میں کیا ہے۔
انہوں نے اشارہ دیا کہ اگر گوگل کی جانب سے ان درخواستوں پر کارروائی نہیں کی گئی تو حکومت ملک میں گوگل کو بین کرنے پر پابندی کرسکتی ہے۔
انوشہ رحمٰن نے کہا کہ نئی حکومت یوٹیوب کی بحالی کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کریں گی، لیکن اسی صورت میں جب ملک میں اسلام مخالف وڈیوز کو بلاک کر دیا جائے گا۔
پاکستان ایک فلٹریشن سسٹم پر کام کر رہا ہے جو حکومت پاکستان کو ملک میں دیکھے جانے والے مواد پر کنٹرول بخشے گا۔ “ہم ضرورت پڑنے پر اس کے لیے سرمایہ کاری بھی کر سکتے ہیں اور اپنی اخلاقی اقدار پر سودے بازی کیے بغیر پاکستان میں یوٹیوب کی بحالی کے لیے حتی المقدور کوششیں کریں گے۔”
گوگل نے ملک میں اسلام مخالف وڈیوز کو بلاک کرنے کی پاکستان کی گزشتہ درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا، یہی قابل اعتراض وڈیوز شام، مصر، سنگاپور، روس اور دیگر ممالک میں بلاک ہیں۔
پاکستان میں گوگل پر پابندی لگانے کے حوالے سے انوشہ کے اس بیان پر منفی ردعمل سامنے آ رہا ہے، جبکہ دیگر افراد اس بیان کو گوگل جیسے سخت گیر ادارے کے خلاف واحد حل قرار دے رہے ہیں کیونکہ گوگل چند ممالک میں وڈیوز کو بلاک کرنے کے حوالے سے امتیازی رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس حوالے سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ آزادی اظہار اور صارفین کی پرائیویسی کا چیمپئن بننے والا گوگل 2007ء سے حکومت امریکہ کو صارفین کی معلومات فروخت کر رہا ہے۔

0 comments:

Post a Comment