ہجرت کا دوسرا سال
جنگ ِ بدر
”بدر” مدینہ منورہ سے تقریباً اسّی میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں زمانۂ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتا تھا۔ یہاں ایک کنواں بھی تھا جس کے مالک کا نام ”بدر” تھا اسی کے نام پر اس جگہ کا نام ”بدر” رکھ دیا گیا۔ اسی مقام پر جنگ ِ بدر کا وہ عظیم معرکہ ہوا جس میں کفار ِ قریش اور مسلمانوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی جس کے بعد اسلام کی عزت و اقبال کا پرچم اتنا سر بلند ہوگیا کہ کفار قریش کی عظمت و شوکت بالکل ہی خاک میں مل گئی۔ ﷲ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام ”یومُ الفرقان” رکھا۔ قرآن کی سورۂ انفال میں تفصیل کے ساتھ اور دوسری سورتوں میں اجمالاً بار بار اس معرکہ کا ذکر فرمایا اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح مبین کے بارے میں احسان جتاتے ہوئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ج فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ
اور یقینا خداوند تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بے سر و سامان تھے تو تم لوگ ﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم لوگ شکر گزار ہو جاؤ۔
جنگ بدر کا سبب
جنگ ِ بدر کا اصلی سبب تو جیسا کہ ہم تحریر کر چکے ہیں “عمرو بن الحضرمی” کے قتل سے کفار قریش میں پھیلا ہوا زبردست اشتعال تھا جس سے ہر کافر کی زبان پر یہی ایک نعرہ تھا کہ ”خون کا بدلہ خو ن لے کر رہیں گے۔”
مگر بالکل نا گہاں یہ صورت پیش آگئی کہ قریش کا وہ قافلہ جس کی تلاش میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ”ذی العشیرہ” تک تشریف لے گئے تھے مگر وہ قافلہ ہاتھ نہیں آیا تھا بالکل اچانک مدینہ میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والا ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس قافلہ میں ابو سفیان بن حرب و مخرمہ بن نوفل و عمرو بن العاص وغیرہ کل تیس یا چالیس آدمی ہیں اور کفار قریش کا مال تجارت جو اس قافلہ میں ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کفار قریش کی ٹولیاں لوٹ مار کی نیت سے مدینہ کے اطراف میں برابر گشت لگاتی رہتی ہیں اور ”کرز بن جابر فہری” مدینہ کی چراگاہوں تک آکر غارت گری اور ڈاکہ زنی کر گیا ہے لہٰذا کیوں نہ ہم بھی کفار قریش کے اس قافلہ پر حملہ کر کے اس کو لوٹ لیں تاکہ کفار قریش کی شامی تجارت بند ہو جائے اور وہ مجبور ہو کر ہم سے صلح کر لیں۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سن کر انصار و مہاجرین اس کے لیے تیار ہوگئے۔
”بدر” مدینہ منورہ سے تقریباً اسّی میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا نام ہے جہاں زمانۂ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتا تھا۔ یہاں ایک کنواں بھی تھا جس کے مالک کا نام ”بدر” تھا اسی کے نام پر اس جگہ کا نام ”بدر” رکھ دیا گیا۔ اسی مقام پر جنگ ِ بدر کا وہ عظیم معرکہ ہوا جس میں کفار ِ قریش اور مسلمانوں کے درمیان سخت خونریزی ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی جس کے بعد اسلام کی عزت و اقبال کا پرچم اتنا سر بلند ہوگیا کہ کفار قریش کی عظمت و شوکت بالکل ہی خاک میں مل گئی۔ ﷲ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام ”یومُ الفرقان” رکھا۔ قرآن کی سورۂ انفال میں تفصیل کے ساتھ اور دوسری سورتوں میں اجمالاً بار بار اس معرکہ کا ذکر فرمایا اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح مبین کے بارے میں احسان جتاتے ہوئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ج فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ
اور یقینا خداوند تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بے سر و سامان تھے تو تم لوگ ﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم لوگ شکر گزار ہو جاؤ۔
جنگ بدر کا سبب
جنگ ِ بدر کا اصلی سبب تو جیسا کہ ہم تحریر کر چکے ہیں “عمرو بن الحضرمی” کے قتل سے کفار قریش میں پھیلا ہوا زبردست اشتعال تھا جس سے ہر کافر کی زبان پر یہی ایک نعرہ تھا کہ ”خون کا بدلہ خو ن لے کر رہیں گے۔”
مگر بالکل نا گہاں یہ صورت پیش آگئی کہ قریش کا وہ قافلہ جس کی تلاش میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام ”ذی العشیرہ” تک تشریف لے گئے تھے مگر وہ قافلہ ہاتھ نہیں آیا تھا بالکل اچانک مدینہ میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والا ہے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس قافلہ میں ابو سفیان بن حرب و مخرمہ بن نوفل و عمرو بن العاص وغیرہ کل تیس یا چالیس آدمی ہیں اور کفار قریش کا مال تجارت جو اس قافلہ میں ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ کفار قریش کی ٹولیاں لوٹ مار کی نیت سے مدینہ کے اطراف میں برابر گشت لگاتی رہتی ہیں اور ”کرز بن جابر فہری” مدینہ کی چراگاہوں تک آکر غارت گری اور ڈاکہ زنی کر گیا ہے لہٰذا کیوں نہ ہم بھی کفار قریش کے اس قافلہ پر حملہ کر کے اس کو لوٹ لیں تاکہ کفار قریش کی شامی تجارت بند ہو جائے اور وہ مجبور ہو کر ہم سے صلح کر لیں۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی سن کر انصار و مہاجرین اس کے لیے تیار ہوگئے۔
0 comments:
Post a Comment