Thursday 11 July 2013

Issues of Zakat...مسائل زکوٰة

Posted by Unknown on 08:37 with No comments
مسائل زکوٰة
شبِ قدر از:  حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب

وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّکوٰةَ۔

مسئلہ: اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا ہے یا اس میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر روپیہ یا نوٹ ہے تو اس پر زکوٰة فرض ہے۔ نقد روپیہ بھی سونے چاندی کے حکم میں ہے (شامی) اور سامانِ تجارت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس پر بھی زکوٰة فرض ہے۔

مسئلہ: کارخانے اور مِل وغیرہ کی مشینوں پر زکوٰة فرض نہیں؛ لیکن ان میں جو مال تیار ہوتا ہے اس پر زکوٰة فرض ہے ، اسی طرح جو خام مال کارخانہ میں سامان تیار کرنے کے لیے رکھا ہے اس پر بھی زکوٰة فرض ہے۔
(درمختار وشامی)

مسئلہ: سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوٰة واجب ہے، زیور، برتن؛ حتی کہ سچاگوٹہ، ٹھپہ، اصلی زری، سونے چاندی کے بٹن، ان سب پر زکوٰة فرض ہے، اگرچہ ٹھپہ گوٹہ اور زری کپڑے میں لگے ہوئے ہوں۔

مسئلہ: کسی کے پاس کچھ روپیہ، کچھ سونا یا چاندی اور کچھ مالِ تجارت ہے؛ لیکن علیحدہ علیحدہ بقدر نصاب ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے تو سب کو ملاکر دیکھیں اگر اس مجموعہ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجائے توزکوٰة فرض ہوگی اور اگر اس سے کم رہے تو زکوٰة فرض نہیں۔
(ہدایہ)

مسئلہ: مِلوں اور کمپنیوں کے شیئرز پر بھی زکوٰة فرض ہے؛ بشرطیکہ شیئرز کی قیمت بقدر نصاب ہو یا اس کے علاوہ دیگر مال مِل کر شیئرہولڈر مالک نصاب بن جاتا ہو؛ البتہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں؛ چونکہ مشینری اور مکان اور فرنیچر وغیرہ کی لاگ بھی شامل ہوتی ہے جو درحقیقت زکوٰة سے مستثنیٰ ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص کمپنی سے دریافت کرکے جس قدر رقم اس کی مشینری اور مکان اور فرنیچر وغیرہ میں لگی ہوئی ہے، اُس کو اپنے حصے کے مطابق شیئرز کی قیمت میں سے کم کرکے باقی کی زکوٰة دے تو یہ بھی جائز اور درست ہے۔ سال کے ختم پر جب زکوٰة دینے لگے اس وقت جو شیئرز کی قیمت ہوگی وہی لگے گی۔ (درمختار وشامی)

مسئلہ: پراویڈنٹ فنڈ جو ابھی وصول نہیں ہوا اُس پر بھی زکوٰة فرض ہے؛ لیکن ملازمت چھوڑنے کے بعد جب اس فنڈ کا روپیہ وصول ہوگا، اس وقت اس روپیہ پر زکوٰة فرض ہوگی، بشرطیکہ یہ رقم بقدرِ نصاب ہو یا دیگر مال کے ساتھ مل کر بقدر نصاب ہوجاتی ہو وصولیابی سے قبل کی زکوٰة پراویڈنٹ کی رقم پر واجب نہیں، یعنی پچھلے سالوں کی زکوٰة فرض نہیں ہوگی۔

مسئلہ: صاحب نصاب اگر کسی سال کی زکوٰة پیشگی دے دے تو یہ بھی جائز ہے؛ البتہ اگر بعد میں سال پورا ہونے کے اندر مال بڑھ گیا تو اس بڑھے ہوئے مال کی زکوٰة علیحدہ دینا ہوگی۔
(درمختار وشامی)
جس قدر مال ہے اس کا چالیسواں حصہ(۴۰---۱) دینا فرض ہے یعنی ڈھائی فیصد مال دیا جائے گا۔ سونے، چاندی اور مال تجارت کی ذات پر زکوٰة فرض ہے اس کا ۴۰---۱ دے اگر قیمت دے تو یہ بھی جائز ہے؛ مگر قیمتِ خرید نہ لگے گی، زکوٰة واجب ہونے کے وقت جو قیمت ہوگی اس کا ۴۰---۱دینا ہوگا۔
(درمختار،ج:۲)

مسئلہ: ایک ہی فقیر کو اتنا مال دے دینا کہ جتنے مال پر زکوٰة فرض ہوتی ہے، مکروہ ہے؛ لیکن اگر دے دیا تو زکوٰة ادا ہوگئی اور اس سے کم دینا بغیر کراہت کے جائز ہے۔
(ہدایہ ج۱)

مسئلہ: زکوٰة ادا ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ جو رقم کسی مستحقِ زکوٰة کو دی جائے وہ اس کی کسی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو۔

مسئلہ: ادائیگی زکوٰة کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰة کی رقم کسی مستحق زکوٰة کو مالکانہ طور پر دے دی جائے، جس میں اس کو ہر طرح کا اختیار ہو، اس کے مالکانہ قبضہ کے بغیرزکوٰة ادا نہ ہوگی۔

0 comments:

Post a Comment