ایک لڑکا آیا کرتا تھا گاچو اس کا نام تھا۔ ایک اس کی بہن تھی چھوٹی سی ۔اور وہ گاچو جو تھا سر کے اوپر
ٹوکرا رکھ کے چھائیں بیچتا تھا۔ چھائیں تربوز کو کہتے ہیں۔
صبح بیچارہ لے کر آتا تھا۔ دونوں یتیم تھے۔ جب دھوپ بڑھتی تھی ، جب دس بجے کے قریب ، تو سر کے
اوپر ٹوکرا لے کر آتا تھا۔ میں اس سے (چھائیں ) ایک دو پھیکے تربوز خرید لیتا تھا ۔
تو وہ بچہ جب چل کے آتا تھا دھوپ میں تو اس کا جو سایا پڑتا۔ ۔ ۔ تھا پیچھے ، تو وہ بھولی سی اس کی بہن
وہ پیچھے پیچھے چلتی تھی۔ اور وہ آگے ہوتا تھا ۔
میں کہتا تھا گاچو تو اپنی بہن کو آگے کیوں نہیں چلاتا ۔
تو کہنے لگا سائیں ، ہم یتیم ہیں ۔ ہم جھونپڑے میں رہتے ہیں تو گرمی بہت ہو جاتی ہے۔ میں چھوٹا بچہ ہوں
۔ مگر میرا سایا بڑا لمبا ہے ۔ میں چاہتا ہوں میری بہن کو گرمی نہ لگے اور وہ میرے سائے میں چلتی رہے ۔
تو یہ گاچو تھا جو اپنی بہن کو گرمی نہیں لگنے دینا چاہتا تھا۔ مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں۔ بہت سے
تو یہ گاچو تھا جو اپنی بہن کو گرمی نہیں لگنے دینا چاہتا تھا۔ مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں۔ بہت سے
لوگ ایسے ہیں آپ کے ملک میں جو تکبر سے دور ہیں اور دوسروں کے لئے بھی زندگی بسر کرتے ہیں ۔
از۔ اشفاق احمد" زاویہ
0 comments:
Post a Comment