Saturday, 6 July 2013

Proud Of Beauty

Posted by Unknown on 04:20 with No comments
حسن کا ناز
 
ہم پانچ بہن بھائی تھے. ابو اچھی ملازمت پر تھے اسلئے بہت سکون بھری زندگی گزار رہے تھے. گھر کا ماحول محبت بھرا تھا. بہنوں کی آپس میں کبھی لڑائی بھی ہو جاتی تھی لیکن یہ سب زندگی کا حصّہ تھا. زیادہ تر آپا سے ان بن ہوتی کیونکہ شازیہ آپا ہم پر رعب جماتی تھیں اور یہ بات ہمیں بری لگتی تھی.
بڑی بہن ہونے کی وجہ سے ہم تینوں چھوٹی بہنیں ان کا لحاظ بھی کرتی تھیں لیکن آپا کا غصہ ہر وقت ناک پہ دھرا رہتا تھا. وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتی تھیں. منہ پھٹ تھیں. اپنی مرضی کرتی تھیں. اور کسی کو بات نہ کرنے دیتی تھیں.
میں، نادیہ اور آصمہ…. ان کے غصے سے نالاں تھے. تاہم امی سمجھاتی تھیں کہ وہ بڑی ہے، تم لوگ اس کے سامنے مت بولا کرو. یاد رکھو ہمیشہ بڑوں کی عزت کرنی چاہئے. ایسا کہہ کر ہی ماں نے آپی کو اور زیادہ سر پر چڑھا لیا تھا.
اب وہ امی ابو کو خاطر میں نہ لاتیں. یہ احساس جاتا رہا کہ کونسی بات ان کے سامنے کرنی ہے اور کونسی بات ان کے سامنے کرنے کی نہیں ہے. آپا کی عادت تھی کہ وہ ہر کسی کا مزاق اڑاتی تھیں. کسی کو کہتی کلو ہے، کوئی اُلٹا توا ہے تو کسی کو گنجا کہہ کر خوب ہنستیں. مجھے آپا کی ان باتوں سے چڑ تھی.
انہی دنوں امی نے آپا کے رشتے کے لئے کوشش شروع کر دی. دادی کہتی تھی بہو یہ لڑکی تمھاری شتر بے مہار ہے.دیکھیں یہ بیل کیوں کر منڈھے چڑھے گی. امی جان اس عمر کی لڑکیا یونہی نادان ہوتی ہیں. شاید پہلی تھی بہت لاڈ پیار بھی ملا ہے. وقت کے ساتھ ساتھ اس کو خود ہی سمجھ آ جائے گی.
وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ تو آ ہی جاتی ہے مگر کچھ لوگ ایسے ضدی اور انا پرست ہوتے ہیں کہ ان کو وقت کے ساتھ بھی سمجھ نہیں آتی. آپی بھی انہی خود سروں میں سے تھیں. سونے پر سہاگا ان کو اپنی خوبصورتی پر بڑا ناز تھا.
ان ہی دنوں خالدہ رشیدہ اپنے بیٹے جہانگیر کا رشتہ لے کر آئیں. میرا یہ کزن تعلیم، صورت اور شکل و صورت ہر لحاظ سے بہتر تھا البتہ…. سر پر بال کچھ کم تھے. آپا نے دیکھتے ہی ہنسنا شروع کر دیا اور مزاق اڑانے لگیں کہ یہ گنجا ہے. یہ تم کیا کہہ رہی ہو امی نے ڈانٹا. خالہ تو رشتہ مانگنے آئی ہوئی تھیں اور آپا جہانگیر کو دیکھ دیکھ کر ٹھٹھے لگا رہی تھیں. امی بولیں. کچھ شرم کرو ہم تمہاری شادی اس کے ساتھ طے کر رہے ہیں اور تم اس کا مزاق اڑا رہی ہو.
شازیہ بولی. اماں خاطر جمع رکھو، میں نے اس گنجے سے شادی نہیں کرنی. امی جان نے سختی سے ڈانٹا. خالہ سامنے بیٹھی تھی ان کا چہرہ اُتر گیا. وہ شرمندہ ہو گئیں. اتنے میں ابو آ گئے اور سمجھانے لگے کہ شازیہ بیٹی کہ اس سے بہتر رشتہ ہمیں نہیں ملے گا. میں نے بھی لقمہ دیا کہ آپی…. کیا قباحت ہے اس رشتے میں، اتنے اچھے تو ہیں بھائی..
اچھے ہوں یا برے ہوں، مجھے اس سے شادی نہیں کرنی. یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تو امی بھی ان کے پیچھے گئیں. شازیہ تمھیں اپنے باپ کا بھی لحاظ نہیں. کتنی بے شرمی سے تم نے اپنے باپ کے سامنے انکار کر دیا.
امی…. زندگی میں نے گزارنی ہے آپ نے تو نہیں گزارنی…سہیلیاں میرا مزاق اُڑائیں گی. میں دوسروں پر ہنستی تھی، اب سب مجھ پر ہنسیں گے….خالہ سب سن چکی تھیں. وہ بد دل ہو گئیں. امی سے کہا! رضیہ بہن میں نہیں چاہتی کہ تمھاری بیٹی کے ساتھ زبر دستی ہو اور بعد میں دونوں کی نہ بنے. مجھے کوئی شکوہ نہیں ہے. سب مقدر کے کھیل ہوتے ہیں یہ کہہ کر وہ چلی گئیں.
خالہ کی آنکھوں میں آنسو تھے. امی بھی رنجیدہ تھیں. کہا شاید میری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہے تبھی تو شازیہ مجھے دکھ دے رہی ہے. سال بعد میرے کزن کی شادی ہوگئی. ہم سب شادی میں شریک ہوئے لیکن آپی نا گئیں. خالہ جان اور میرے کزن نے کوئی شکوہ نہ کیا. ان کا گھر بس گیا. بیوی اچھی ملی، ان کی دنیا آباد ہو گئی. ان کو کوئی غم نہیں تھا کہ شازیہ آپی نے انہیں گنجا کہہ کر ٹھکرا دیا تھا.
اب مسئلہ جوں کا توں تھا یعنی شازیہ کے رشتے کے لئے امی تگ و دو میں مصروف تھیں کہ شازیہ کو بیاہنا ہے. کوئی اچھا لڑکا ہے تو بتاؤ. ان کو ایک نہیں شار بیٹیوں کی فکر تھی. مگر سب سے زیادہ پریشانی ان کو شازیہ کی طرف سے تھی کیونکہ بقول امی یہ لڑکی تو ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دیتی تھی.
آپی کو اللہ نے اطھی صورت دی تھی لہٰزا نخوت بھی تھی. غرور بھی آ گیا تھا. اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھتی ہی نہ تھی.
انہیں دنوں ایک امیر اور معزز گھرانے سے ان کے لئے رشتہ آیا. امی جان کو بہت پسند آیا. لڑکا خوبصورت، تعلیم یافتہ تھا اور گھرانہ خوشحال تھا. امی نے ہاں کر دی لیکن جس بات سے ڈر رہی تھیں، وہی ہو گئی.
جب سارے معاملات طے ہو گئے تو آپی سے پوچھنے کا مرحلہ آیا. اب امی کی عزت آپی کے ہاتھ میں تھی. پہلے تو گھر کی بات تھی. خالہ رنجیدہ ہو کر بھی چپ ہو گئی تھیں. مگر اب معاملہ غیروں کا تھا. زرا سے بد مزگی دونوں گھرانوں کے لئے تازیانہ ہو سکتی تھی.
اسلم کے گھر والوں نے فوری جواب مانگا تھا. جواب میں آپنی پھر ایک بار انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ یہ لوگ دیہات میں رہتے تھے، اب شہری بن گئے ہیں تو کیا ہوا. ان کی عادتیں تو وہی ہوں گی.
یہ کوئی جواز نہ تھا کسی اچھے رشتے کو ٹھکرانے کا مگر خدا جانے آپی کیوں کچھ سمجھتی ہی نہیں تھی. وہ شادی کو کھیل سمجھتی تھی. شاید آپی کے ذہن میں آئندہ زنگی کا کوئی حقیقی تصور نہیں تھا. خدا جانے وہ خوابوں کی کس دنیا میں رہتی تھیں.
جب انہوں نے فوری جواب مانگا اور آپی نے یہ کہہ کر رنکار کر دیا کہ لڑکے کا رنگ سانولا ہے. جب ان کو گوری لڑکی کی تمنا ہے تو مجھے بھی گورا جیون ساتھی چاہئے. ایسی باتیں سن کر امی نے سر پکڑ لیا کہ خدا جانے یہ لڑکی کیا چاہتی ہے. بیٹی یہ کوئی کھیل نہیں ہے کہ تم ہر موقع پر انکار کر دیتی ہو. آپ کو بھی تو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے.
سانولی رنگت کوئی عیب نہیں ہے. باجی نادیہ نے آپی کو سمجھانا چاہا تو آپی نے جھٹ کہا، ایسی بات ہے تو تم کر لو نا اسلم کے ساتھ شادی، تم کو کالے لوگ بہت اچھے لگتے ہیں نا، انہوں نے سارا غصہ نادیہ پر نکال دیا. ایک لمحے کو تو نادیہ لرز گئی پھر سنبھل کر بولی، امی جان آپ باجی کی فکر چھوڑئیے اور اب دوسری بیٹیوں کی فکر کریں. مایوس ہو کر امی نے نادیہ کی طرف دیکھا جو امی کے درد کو سمجھ رہی تھی. ماں کی آنکھوں میں امید کی ایک نئی کرن جاگی. نادیہ ماں سے بولی، ماں! مجھے اس گھر کی عزت اور آپ کی خوشی پیاری ہے. آپ ان لوگوں کو انکار مت کیجئے. آپی نہ سہی آپ کی دوسری بیٹی سہی. میں آپ کا ہر حکم بجا لانے کو تیار ہوں.
یوں نادیہ نے ماں کی خوشی کے لئے سر تسلیم خم کر دیا. اسلم کے والدین کو کوئی اعتراض نہ ہوا. بڑی نہ سہی چھوٹی سہی. انہوں نے رشتہ اسی گھرانے سے لینا تھا سو لے لیا.
اب ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور سب کو اپنی قسمت کا ملتا ہے. نادیہ کے نصیب میں جو تھا سو مل گیا. امی ابو یہ سوچ کر چپ تھے کہ چلو ایک بوجھ تو ہلکا ہوا. دو سال تک امی دن رات سوچوں میں جلتی رہیں. شازیہ کے لئے کوئی مناسب رشتہ نہیں آ رہا تھا. نادیہ باجی اپنے گھر میں خوش اور مطمئن زندگی گزار رہی تھیں اور سب ہی ان کی خوشیوں بھری زندگی پر رشک کرتے تھے. ان کو اپنے شوہر کے سانولے رنگ سے کوئی شکایت نہیں تھی بلکہ وہ تو کہتی تھی کہ اسلم سے بڑھ کر کوئی حسین نہیں ہے.
امی نے کئی عورتوں کے ذمے لگا رکھا تھا کہ جیسے میری نادیہ کا نصیب کھلا ہے، ایسے ہی کسی اچھے گھرانے سے شازیہ کا بھی رشتہ آ جائے. سب کا خیال تھا کہ نادیہ کو خوش و خرم دیکھ کر شازیہ کو عقل آ گئی ہو گی لہٰزا اب جو رشتہ آئے گا وہ نہیں ٹھکرائے گی. انہی دنوں ابو جان کے ایک دوست اپنی فیملی کے ساتھ آ گئے. وہ بڑی مدت کے بعد آئے تھے کیونکہ وہ برطانیہ چلے گئے تھے. ابو نے بہت خوشی سے انکا خیر مقدم کیا اور وہ ہمارے گھر رُکے. ان کا بیٹا طارق بھی ساتھ تھا. وہ ایک خوبصورت اور پڑھا لکھا نوجوان تھا. اور ابو کے دوست اس کے رشتے کے لئے پاکستان آئے تھے. وہ اپنے بیٹے کے لئے ایک پاکستانی اور مشرقی اقدار والی لڑکی ڈھونڈ رہے تھے.
جب مسز سلطان نے شازیہ باجی کو دیکھا تو بہت خوش ہوئیں اور امی سے کہا. ارے لڑکی تو گھر میں موجود ہے اور میں خوامخواہ ادھر اُدھر ڈھونڈتی پھرتی ہوں. بس اب میں طارق کے لئے آپ کی شازیہ ہی لوں گی. ہم سب ڈر رہے تھے کہ شازیہ ایسی کوئی بات نہ کر دے جس سے ان کی دل آزاری ہو. وہی ہوا یہ بات سن کر ہماری آپا آپے سے باہر ہو گئیں اور اُسی خود سری اور ضد سے کہنے لگی کہ میں اپنا وطن چھوڑ کر برطانیہ نہیں جاؤں گی.جانے وہاں میرے ساتھ کیا ہو.
اب کی بار یہ قربانی فائزہ نے دی. امی نے اس کو سمجھایا کہ اتنا اچھا رشتہ ہے، شازیہ کا تو دماغ درست نہیں ہے. بیٹی تم ہماری لاج رکھ لو اور انکار مت کرنا. ہمارا بڑھاپا ہے، جتنی جلدی تم اپنے گھر کی ہو جاؤ اچھا ہے.
فائزہ نے سوچا آپی بے حد خوبصورت ہیں اس لئے ان کے معیار کو کوئی اترتا نہیں ہے اور میں معمولی صورت کی ہوں، کیا خبر یہ لوگ مجھے قبول نہ کریں. اس نے امی سے کہا. ماں! اگر وہ لوگ مجھے قبول کرتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے. آپ میری فکر نہ کریں لیکن شازیہ آپی کا کیا بنے گا. آخر کب تک وہ یونہی انکار کرتی رہیں گیں.
ماں نے فائزہ کے شانے پر محبت سے ہاتھ رکھ کر کہا. میری بیٹی اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو. وہ اپنی مرضی کی مالک ہے، دیکھ لینا کہ وہ کل ضرور پچھتائے گی اور یہ وقت بھی ہاتھ نہیں آئے گا. اب میں طارق کے لئے تمہارا ہی نام لوں گی. آگے تیری تقدیر کہ کیا ہوتا ہے. امی نے آنٹی سے بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ شازیہ بھی تمھاری بیٹی ہے اور فائزہ بھی بلکہ فائزہ زیادہ کم عمر ہے. ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے. میرا بیٹا اچھا انسان ہے وہ اس کو خوش رکھے گا. تم بالکل فکر مت کرنا.
فائزہ بھی اپنے گھر کی ہو گئی. طارق کے ساتھ بیاہ کر لندن چلی گئی. اس کے خطوط اور فون آتے تھے. وہ وہاں بہت خوش تھی. سب اس کا بہت خیال رکھتے تھے اور شوہر بھی بہت پیار کرنے والا تھا.
اب میں اور آپی بچ گئی تھیں اور آپی تو بہت خوشحال تھی کہ بلا ٹلی اور اس رشتے سے جان چھوٹی. اس انکار کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی شاید ان کو والدین کے بھروسے پر یقین نہیں تھا. سب سے بڑی بیٹی ہونے کی وجہ سے امی ابو کو شازیہ آپکی کی فکر ایک روگ کی طرح کھا رہی تھی.
خالہ جان میرے لئے ایک رشتہ لائیں. لڑکا نیک شریف اور پڑھا لکھا تھا. زیادہ امیر لوگ نہیں تھے لیکن کھاتے پیتے ضرور تھے. یوں میں بھی اس گھر سے رخصت ہو گئی. شازیہ کی ہٹ دھرمی سے ماں باپ کے دل چونکہ کافی رنجیدہ تھے لہٰزا میں نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا، بس اللہ پر معاملہ چھوڑ دیا اور والدین پر بھروسہ کیا. اور خدا نے اپنی رحمت کر دی. میں اپنے گھر میں خوش اور مطمئن تھی. والدین نے بھی اللہ کا شکر ادا کیا کہ چار بیٹیوں میں سے تین خوش و خرم اور خوشحال تھیں اور ماں باپ کی دعاؤں سے ان کو سسرال بھی اچھے ملے تھے.
اب والد بیمار رہنے لگے تھے. وہ ریٹائرڈ ہو گئے تو پینشن پہ گزارا کرنا پڑا. مالہ حالات بھی خراب رہنے لگے. امی جان آپی کو سمجھاتی تھیں کہ اب تم رہ گئی ہو آخر کب تک یونہی بیٹھی رہو گی. کب تک ہماری آزمائش چلے گی. اس پر آپی نے جواب دیا کہ میں شادی نہیں کروں گی بلکہ نوکری کر کے آپ لوگوں کے بڑھاپے کا سہا را بنوں گی.
اچھی ملازمتیں یونہی نہیں مل جاتیں. شازیہ آپی کی خاطر ابو نے کافی کوشش کی اور ان کے ایک دوست کے توسط سے آپی کو بینک میں نوکری مل گئی. والدین بیچارے ٹھنڈی سانس بھر کر چپ ہو گئے کہ بیٹی نے اپنے مرضی کر لی لیکن اس کی شادی کی عمر نکلتی جا رہی تھی.
فائزہ کے سسرال دور تھے لیکن میں اور میری بہن نادیہ کبھی کبھار اپنے میکے آ جایا کرتی تھیں. امی ابو تینوں بیٹیوں کی طرف سے مطمئن تھے لیکن آپی ان کے لئے ایک خلش بنی ہوئی تھی. وہ اب بھی یہ کہتے تھے کہ بیٹی تم شادی کر لو. آخر شادی نہ کرنے کی وجہ کیا ہے. ہمارا کیا بھروسہ آج ہیں کل نہیں. پھر تمھارا کیا بنے گا. ابھی بھائی کی شادی باقی تھی کیونکہ وہ سب سے چھوٹا تھا اور ابھی اسے ملازمت بھی نہیں ملی تھی، اس لئے شادی مشکل ہو گئی تھی.
جہاں آپی ملازمت کرتی تھیں وہاں آصف نام کا ایک شخص ملازم تھا. جانے کیسے دونوں میں رابطہ بڑھا اور دوستی ہو گئی. پھر انہوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا. آصف کیسا تھا کون تھا ہمیں کچھ علم نہ تھا. مگر جو قباحت تھی وہ یہ تھی کہ وہ شادی شدہ تھا. مگر آپی کی آنکھوں پر تو پٹی بندھی تھی کہ یہ حقیقت جاننے کے بعد بھی انہوں نے آصف کی شریک حیات بننے کا فیصلہ کر لیا. امی ابو نے کافی سمجھایا مگر یہ لڑکی کب کسی کی ماننے والی تھی. وہ اپنی ضد پر اڑ گئی کہ شادی کروں گی تو آصف سے ورنہ عمر بھر کنواری رہوں گی. امی ابو جانتے تھے کہ یہ کتنی ضدی ہے، جو سوچتی ہے کر کہ رہتی ہے. بلا سے اب جو بھی ہو یہ دلہن تو بنے. شادی شدہ تو کہلائے.
آپی کی ضد پر امی ابو نے شادی کی اجازت دے دی لیکن شادی نہایت سادگی سے ہوئی. کچھ عرصہ تک توآصف نے اس معاملے کو انتہائی خفیہ رکھا مگر یہ شادی کب تک چھپ سکتی تھی. پہلی بیوی کو علم ہو گیا، اس کے بعد تو قیامت آ گئی.
آصف کی پہلی بیوی ایک پولیس آفیسر کی بیٹی تھی. اس نے نا صرف شوہر کو ناکوں چنے چبوا دیئے بلکہ ان کی وجہ سے آپی کو بھی کافی عرصہ تک چھپ کر رہنا پڑا. آصف ایسے گئے کہ پھر لوٹ کر نا آئے اور نہ آپی کی خبر لی کہ کس حال میں ہے. اس غم میں آپی نے نوکری بھی چھوڑ دی. اب کہتی تھی کہ واقعی میرا انتخاب غلط تھا. والدین ہی سوچ چمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں. ہم تو جزباتی ہو جاتے ہیں. تب ہم سے درست فیصلے بھی نہیں ہو پاتے.
آپی کو طلاق ہو گئ. ان کا حسن ماند پڑ چکا تھا. جس حسن پر وہ اتراتی تھیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھیں اُسی حسن کے غرور نے ان کو خالی ہاتھ کیا اور اب وہ پچھتاتی ہیں مگر
اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت.

0 comments:

Post a Comment