سفارش طلب
سفارش طلب سے نمٹنے کے کئی طریقے ہیں.
بعض لوگ گلو خلاصی کے لئے نہایت فیاضی سے جھوٹا وعدہ کر دیتے ہیں اور پھر
بھول جاتے ہیں، لیکن یہ بزدلوں اور مصلحت کوشوں کا طریقہ ہے. آپ ایسا ہرگز
نہ کیجئے گا ورنہ آپ کا بھی وہی حشر ہو گا جو ہمارے دوست کا ہوا. آپ میرے
دوست کی کہانی خود اس کی زبانی سنئے:
” ایک مرتبہ میں لاہور میں ایک معمولی سا
ٹیچر بن گیا لیکن گاؤں میں مشہور ہو گیا کہ پروفیسر ہو گیا ہوں چنانچہ
سفارش کا تانتا لگ گیا. سب سے پہلے ایک پرانے ہم جماعت کامران صاحب آ گئے.
بولے”منشی فاضل کا امتحان دیا ہے. دوسرا پرچہ بہت نکمّا ہوا ہے. پروفیسر
قاضی صاحب ممتحن ہیں. انہیں کہہ کے پاس کرا دو.”
ایک روایت کے مطابق پروفیسر قاضی صاحب تک
ان کی بیوی بھی مشکل سے ہی پہنچتی تھی. میری رسائی سے تو وہ سراسر باہر
تھے، لیکن کامران صاحب کو ٹالنے اور کسی حد تک اپنی پرعفیسری کا رعب جمانے
کے لئے کہہ دیا.
“ارے قاضی-وہ تو ہمارا لنگوٹیا ہے. تمھیں فرسٹ ڈویژن دلوا دیں گے.”
اس کے بعد کامران سے سرخروئیکی خاطر
دُعائیں تو بہت مانگیں لیکن وہ فیل ہو گیا اور جب کامران نے نتیجہ سنا تو
فوراً لکھا.”اب گاؤں کبھی نا آنا ورنہ مار ڈالوں گا.” دو ہی دن گزرے تھے کہ
میرے ہمسائے مبّشر صاحب اپنے بیٹے کی سفارش لے کر آ دھمکے.بولے.” کاکے
جمیل نے میٹرک کا امتحان دیا ہے. ریاضی کا پرچہ تھوڑا گڑبڑ ہو گیا ہے. محسن
صاحب کے پاس پرچے ہیں، انہیں اشارہ کر دیجئے گا.”
اشارے کے لفظ سے ظاہر تھا کہ مبّشر صاحب
کے ذہن میں میرے رسوخ کا بلندتصور تھا چنانچہ اس وقت تو کہہ دیا کہ فکر نہ
کریں مبّشر صاحب محسن صاحب کا کان پکڑ کے لڑکے کو پاس کرا دوں گا. لیکن
حقیقت یہ تھی کہ محسن صاحب کے کان میری گرفت سے یکسر باہر تھے. بہر حال
مجھے معلوم تھا کہ لڑکا فیل ہی ہو گا. چنانچہ اپنی بریت اور کار گزاری
دکھانے کے لئے ایک ترکیب نکالی…. ایک دن مبّشر صاحب اور ان کے بیٹے جمیل کو
بلا بھیجا اور کسی قدر جلال میں آ کر مبّشر صاحب سے خطاب کیا.
“واہ مبّشر صاحب واہ. آپ نے ہماری خوب
کرکری کرا دی، ہم محسن صاحب کے پاس گئے تو انہوں نے پرچہ نکال کر ہمارے
سامنے رکھ دیا اور کہا کہ تم خود ہی انصاف سے جو چاہو نمبر دے دو. اور پرچہ
دیکھتا ہوں تو اوٹ پٹانگ لکھا ہے. اکبر کے بیٹے کا نام دین الٰہی تھا اور
پرویز لاٹھیں بیچا کرتا تھا، جانگیر کبوتر پالتا تھا، اس کے علاوہ ہجے غلط،
املاء خراب. خدا جانے یہ لڑکا پورا سال کیا کرتا رہا ہے؟”
اس پر ہماری کارگزاری سے مطمئن ہو کر مبّشر صاحب نے اپنا ڈنڈا اور جمیل کے رسید کرتے ہوئے فرمایا:
“کم بخت تاش کھیلتا رہا ہے اور کیا کرتا رہا ہے؟”
لیکن کچھ دن بعد جب نتیجہ نکلا تو جمیل پاس ہو گیا اور پھر باپ کا ڈنڈا لے کر میری تلاش میں پھرنے لگا….
0 comments:
Post a Comment