Sunday 18 August 2013

Nawfal's Dead Body...نوفل کی لاش

Posted by Unknown on 23:07 with No comments
ہجرت کا پانچواں سال

نوفل کی لاش

اس کے بعد نوفل غصہ میں بپھرا ہوا میدان میں نکلا اور پکارنے لگا کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے؟ حضرت زبیر بن العوام رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اس پر بجلی کی طرح جھپٹے اور ایسی تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار زین کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کی کمر تک پہنچ گئی لوگوں نے کہا کہ اے زبیر! رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہاری تلوار کی تو مثال نہیں مل سکتی آپ نے فرمایا کہ تلوار کیا چیز ہے؟ کلائی میں دم خم اور ضرب میں کمال چاہیے۔ ہبیرہ اور ضرار بھی بڑے طنطنہ سے آگے بڑھے مگر جب ذوالفقار کا وار دیکھا تو لرزہ براندام ہو کر فرار ہو گئے کفار کے باقی شہسوار بھی جو خندق کو پار کرکے آ گئے تھے وہ سب بھی بھاگ کھڑے ہوئے اور ابوجہل کا بیٹا عکرمہ تو اس قدر بدحواس ہو گیا کہ اپنا نیزہ پھینک کر بھاگا اور خندق کے پار جا کر اس کو قرار آیا۔
(زرقانی جلد ۲ )

بعض مؤرخین کا قول ہے کہ نوفل کو حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے قتل کیا اور بعض نے یہ کہا کہ نوفل حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے گھوڑے کو کودا کر خندق کو پار کرنا چاہتا تھا کہ خود ہی خندق میں گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیا بہر حال کفار مکہ نے دس ہزار درہم میں اس کی لاش کو لینا چاہا تا کہ وہ اس کو اعزاز کے ساتھ دفن کریں حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے رقم لینے سے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ ہم کو اس لاش سے کوئی غرض نہیں مشرکین اس کو لے جائیں اور دفن کریں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
(زرقانی جلد۲ ص۱۱۴)

اس دن کا حملہ بہت ہی سخت تھا دن بھر لڑائی جاری رہی اور دونوں طرف سے تیر اندازی اور پتھر بازی کا سلسلہ برابر جاری رہا اور کسی مجاہد کا اپنی جگہ سے ہٹنا ناممکن تھا، خالد بن ولید نے اپنی فوج کے ساتھ ایک جگہ سے خندق کو پار کر لیا اور بالکل ہی ناگہاں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے خیمہ اقدس پر حملہ آور ہو گیا مگر حضرت اسید بن حضیر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو دیکھ لیا اور دو سو مجاہدین کو ساتھ لے کر دوڑ پڑے اور خالد بن الولید کے دستہ کے ساتھ دست بدست کی لڑائی میں ٹکرا گئے اور خوب جم کر لڑے اس لئے کفار خیمہ اطہر تک نہ پہنچ سکے۔
(زرقانی جلد۲ ص۱۱۷)

اس گھمسان کی لڑائی میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نماز عصر قضا ہو گئی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا۔ تو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی ہے پھر آپ نے وادی بطحان میں سورج غروب ہو جانے کے بعد نماز عصر قضا پڑھی پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا فرمائی۔ اور کفار کے حق میں یہ دعا مانگی کہ

مَلَاَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ بُيُوْتَهُمْ وَ قُبُوْرَهُمْ نَارًا کَمَا شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰي حَتّٰي غَابَتِ الشَّمْسُ۔
(بخاری ج۲ ص۵۹۰)
ﷲ ان مشرکوں کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے ان لوگوں نے ہم کو نماز وسطیٰ سے روک دیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔

جنگ خندق کے دن حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ دعا بھی فرمائی کہ:

اَللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِيْعَ الْحِسَابِ اهْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَ زَلْزِلْهُمْ
(بخاری ج۲ ص۵۹۰)

اے ﷲ! عزوجل اے کتاب نازل فرمانے والے! جلد حساب لینے والے! تو ان کفار کے لشکروں کو شکست دے دے، اے ﷲ! عزوجل ان کو شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ دے۔

0 comments:

Post a Comment