ٹیلی کام صنعت کی طرف سے غریب ریٹیلرز پریشان
نئی سموں کی فروخت کی اجازت فی الحال صرف کمپنی کے سروس سینٹرز اور فرنچائز کو دی گئی ہے۔ جبکہ موبائل کی دکانوں اور ریٹيلرز کو زبردستی نئی سمز کی فروخت سے منع کیا جارہا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں پی ٹی اے کے ایک حکم کے مطابق ہدایت کی گئی تھی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ غیر قانونی سمز کی فروخت کو روکنے کے لئے اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ کوئی غیر اندراج شُدہ سم غیر قانونی طور پر مارکیٹ میں فروخت تو نہیں ہو رہی،ان اقدامات کو عمل میں لایا گیا ہے۔
وزیرِداخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو کم کرنے کے لئے یہ اقدامات بہت کارآمد ثابت ہوۓ ہیں۔
اس پورے عمل کے دوران، موبائل ریٹیلرز کے مستقبل پر غور نہیں کیا گیا۔ وہ بے روزگار اور بے یارومددگار چھوڑ دیے گۓ۔ خاص طور پر وہ سم اسٹاک جو ان کے پاس دستیاب ہے اس بارے میں اُنہیں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔
فی الحال تمام ریٹیلرز اپنی موجودہ سموں کے ذخیرے کے بارے میں نئی ہدایات کا انتظارکر رہے ہیں۔
تقریباً 400،000 ریٹیلرز اس فیصلے سے متاثر ہوۓ ہیں۔ اُن لوگوں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں ٹیلی کام کی خدمات اور مصنوعات کے پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ریٹیلرز نے ٹیلی کام انڈسٹری کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح کام کیا اور 2004 میں 5 ملین سے 2012 میں 120 ملین تک موبائل صارفین کی تعداد میں اضافہ کیا۔
اب ریٹیلرز بے روزگار ہیں اور ان سے حتٰی کہ ٹیلی کام کمپنیاں بھی لا تعلقی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جو مارکیٹ میں لبریزی کی وجہ سے ان ہاؤس سیلز سے مطمئن نہیں ہیں۔
ایک ریٹیلر نے ہمیں یہ خط لکھا جو ہم بالکل اسی طرح پیش کر رہے ہیں۔
یہ خط بہت سے سوالات اٹھاتا ہے حکام سے اس خط پر غور کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔۔۔
آپ بھی پڑھیے
نئی سموں کی فروخت کی اجازت فی الحال صرف کمپنی کے سروس سینٹرز اور فرنچائز کو دی گئی ہے۔ جبکہ موبائل کی دکانوں اور ریٹيلرز کو زبردستی نئی سمز کی فروخت سے منع کیا جارہا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں پی ٹی اے کے ایک حکم کے مطابق ہدایت کی گئی تھی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ غیر قانونی سمز کی فروخت کو روکنے کے لئے اور اس بات کا یقین کرنے کے لیے کہ کوئی غیر اندراج شُدہ سم غیر قانونی طور پر مارکیٹ میں فروخت تو نہیں ہو رہی،ان اقدامات کو عمل میں لایا گیا ہے۔
وزیرِداخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو کم کرنے کے لئے یہ اقدامات بہت کارآمد ثابت ہوۓ ہیں۔
اس پورے عمل کے دوران، موبائل ریٹیلرز کے مستقبل پر غور نہیں کیا گیا۔ وہ بے روزگار اور بے یارومددگار چھوڑ دیے گۓ۔ خاص طور پر وہ سم اسٹاک جو ان کے پاس دستیاب ہے اس بارے میں اُنہیں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔
فی الحال تمام ریٹیلرز اپنی موجودہ سموں کے ذخیرے کے بارے میں نئی ہدایات کا انتظارکر رہے ہیں۔
تقریباً 400،000 ریٹیلرز اس فیصلے سے متاثر ہوۓ ہیں۔ اُن لوگوں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں ٹیلی کام کی خدمات اور مصنوعات کے پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ریٹیلرز نے ٹیلی کام انڈسٹری کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح کام کیا اور 2004 میں 5 ملین سے 2012 میں 120 ملین تک موبائل صارفین کی تعداد میں اضافہ کیا۔
اب ریٹیلرز بے روزگار ہیں اور ان سے حتٰی کہ ٹیلی کام کمپنیاں بھی لا تعلقی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جو مارکیٹ میں لبریزی کی وجہ سے ان ہاؤس سیلز سے مطمئن نہیں ہیں۔
ایک ریٹیلر نے ہمیں یہ خط لکھا جو ہم بالکل اسی طرح پیش کر رہے ہیں۔
یہ خط بہت سے سوالات اٹھاتا ہے حکام سے اس خط پر غور کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔۔۔
آپ بھی پڑھیے
اسلام علیکم۔
أپ سے گزارش عرض ھے اس ای میل کو ایک بار
ضرور پڑھیے گا۔ کیونکہ یہ 4 لاکھ خاندانوں کی ذندگی اور موت کا مسعلہ ھے۔
جیسا کہ اپ جانتے ھیں رحمان ملک صاحب نےموبائل کنیکشن کی فروخت پر پابندی
لگادی ھے جس سے 4 لاکہ لوگوں کا اور 4 لاکھ خاندانوں کا زریع معاش وابستہ
تھا۔
ہر پیشہ میں اچھے برے لوگ ھے اس پیشہ میں
بھی تھے مگر چند سو لوگوں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں سے انکا کاروبار چھین لیا
جاے یہ کہاں کا انصاف ھے ؟ سرکاری ملازمین کرپشن رشوت ستانی کرتے ہیں تو
کیا وہ سرکاری ادارہ بند کردینا چاہیے؟
موبایل سمز غلط ناموں پر کیسے ایکٹیو کی
جاتی ہیں۔ موبائل کمپنی کنیکشن سیلز کا ٹارگٹ دیتی ہیں ہر ماہ فرنچایز کو 3
سے 4 ہزار کنیکشن ۔ اور دھمکاتی بھی ھیں کہ اگر ٹارگٹ پورا نہ کیا تو
کمیشن نہ ملے گا۔لیگل کرو یا ال لیگل سیلز لاو۔ فرنچایز کے پاس عوام اور
اپنے تمام کسٹمرز کے شناختی کارڈ ہوتے ہیں۔ سمز ایکٹیو کرنے کے لیے پوچھے
جانے والے خفیہ سوال انکے جواب صرف کمپنی اور کمپنی کے ملازمین کو پتہ ھوتے
ہیں سسٹم کی کمزوریاں بھی۔
کچھ موبائل شاپس کمپنی ملازمین کی یا انکی
پارٹنر شپ میں ہوتی ھیں جہاں سے یہ ایکٹیو سمز فروخت کی جاتی ہیں ۔فرنچایز
سے اس لیے فروخت نہیں کرتے کہ پی ٹی اے کا ڈر ہوتا ہے۔ تو قربانی کا بکرا
اور بدنامی کا بکرا موبایل شاپ بن جاتی ہے دولت مند کرپشن کرکے اپنے تعلقات
اور پیسہ کی وجہ سے بچ جاتا ہے۔ اور پھنستا غریب دکاندار اور کمپنی ملازم
ھے جو اپنی نوکری یا دکان بچانے کے لیے کمپنیز کی بلیک میلنگ کا شکار
ہوجاتا ہے۔
اب بھی یہ ہوا کہ گورنمیٹ اور پی ٹی اے نے
کمپنی اور فرنچایز کو تحفظ فراہم کردیا۔اور 4 لاکھ دکانداروں کو
بےروزگارکردیا۔موبیل شاپس پر رکھا کروڑوں روپے کی سمز نہ کمپنی واپس لینے
کو تیار ہے نہ بیچنہ دینے کو۔ رحمان ملک صاحب دکانداروں کا مال کمپنی کو
واپس لینے کے لیے بھی کوئی حکم جاری فرمایں کٰہ بےروزگار کرنےکا حکم تو بہت
جلدی جاری کردیا تھا۔ جو سم موبائل شاپ سے 70 روپے کی مل جاتی تھی اب وہ
500 اور اس سے زیادہ کی فرنچائز سے مل رہی ہے جبکہ کمپنی سے وہ سم 60 روپے
کی فرنچائز کو ملتی ہے۔کہیں اس پالیسی کا مقصد صرف کپمنی اور فرنچایز کو
فایدہ اور عوام کو لوٹنا تو نہیں ؟
زرا سوچئے جس ملک کا قانون صرف طاقتور اور
پیسے والو کو تحفظ فراہم کرتا اور کمزوروں کےفورا خلاف حرکت میں اجاتا
ہو۔وہاں کل بھی اج بھی اور أئندھ بھی طاقتور لوگ ان ضمیر فروش فرنچایز اور
کمپنی ملازمین سے بنا نام کی سمز حاصل کرتے رہیں گے۔ اور کچھ زہین لوگ کبھی
موبئل شاپس بند کرنے کے حکم کبھی عوام کو بند کرنے کے حکم جاری کرتے رہیں
گے۔
ھمارے خیال سے موبئل فون پولیس کے لیے مخبر
کا کام کرتا ہے۔جسکہ زریع ان کی أپس کی بات چیت ان کی پلاننگ پتہ چلتی ھے۔
ان کو پکڑنے کے لیے وہ طریقہ اپنائے جائیں جو ساری دنیا میں رائج ہیں۔ سم
لوکیٹر،موبائیل لوکیٹر۔ اگر تخریب کار موبائل کی جگہ انٹرنیٹ سروسس سے
کالنگ کریں تو انکا پکڑنا اور مشکل ہوگا۔ کہ غیرملکی ویب سئٹس انکو معلومات
شائد ہی فراھم کریں۔ موبائل سگنلز بند کرنے سے فی الحال تو فایدہ ہو رہا
ھے مگر تخریب کار وائرلیس واکی ٹاکی یا دوسرے ٹیکنالوجی استعمال کرنا شروع
کریں گے، بم بنانے کے طریقے انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔بم بنانے کا سامان بھی
دکانوں پر دستیاب ہے غیرقانونی اسلحہ بھی بااسانی دستیاب ہے مگر ساری توجہ
موبائل سمز پر مرکوز۔
کیونکہ اسلحہ کہ تاجروں اور موت کے سوداگروں
کے حمایتی لوگ حکومتیں بنا اور گرا سکتے ہیں۔ رشوت اور سفارش پر بننے والے
سرکاری ملازم میرٹ پر بننے والے تخریب کار کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟
0 comments:
Post a Comment