عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
عشق پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
کیاری میں پانی ٹھہرا ھے دیواروں پر کائی ھے
حسن کے جانے کتنے چہرے حسن کے جانے کتنے نام
عشق کا پیشہ حسن پرستی عشق بڑا ھرجائی ھے
آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ھی دروازہ کھولا ھے اس کی خوشبو آئی ھے
ایک تو اتنا حبس ھے پھر میں سانسیں روکے بیٹھا ھوں
ویرانی نے جھاڑو دے کے گھر میں دھول اڑائی ھے
0 comments:
Post a Comment