کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو
کہ روٹھتے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو
گِلہ تو یہ ہے، تم آتے نہیں کبھی لیکن
جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو
تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے؟
تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو
سرودِ آتشِ زریں، صحنِ خاموشی
وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو
سنا ہے کہکشاؤں میں روز و شب ہی نہیں
تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو
یہ بات جون تمہاری مذاق ہے کہ نہیں
کہ جو بھی ہو، اسے تم آزمانے لگتے ہو
جون ایلیا
0 comments:
Post a Comment