حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی
اللہ عنہ کی ثابت قدمی
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی
اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں بیٹھ کر تعلیم و
تربیت کا آغاز کرنے سے پہلے اور صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے اِسلام قبول
کرنے کے دو روز بعد اِسلام قبول کرلیا تھا ۔ اِسلام کی راہ میں وہ تمام مصیبتیں
برداشت کیں جو صفِ اوّل کے مسلمانوں نے جھیلیں تھیں لیکن آپ نے کمال صبر و
تحمل سے کام لیا ۔۔۔ آپ راہِ حق وصداقت میں ثابت قدم رہے ۔ آپ نے دِین کی
حفاظت کے لئے صفِ اوّل کے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کا سفر
اختیار کیا ۔۔۔
جب کُفّار کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کی کوئی انتہا نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کو مدینہ طیبہ ہجرت کرجانے کی اجازت دے دی تو یہ ان عالی مقام مُہاجر صحابہ میں سرِ فہرست تھے ، جو سوئے مدینہ دیوانہ وار چلے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارے کی فضاء قائم کی تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد بن ربیع کے مابین رشتہ اخوت قائم ہوا ۔۔۔ حضرت سعد بن ربیع نے اپنے دینی بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے کہا : بھائی جان ! میںاہلِ مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں ، میرے دو باغ ہیں اور دو بیویاں ان میں سے جو باغ آپ کو پسند ہے میںاسے آپ کے نام ہبہ کردیتا ہوں اور ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں تاکہ آپ اس سے شادی کرکے اپنا گھر بسالیں ۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و عیال اور مال میں برکت عطاء فرمائے ۔۔۔ آپ مجھے منڈی کا پتہ بتادیں ، میں وہاں محنت کرکے کماؤںگا، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے مدینہ طیبہ کی منڈی میں تجارت کا پیشہ اپنایا ، اور اس کاروبار میںاللہ تعالیٰ نے اتنی برکت عطاء فرمائی کہ تھوڑے ہی عرصے میںاچھی خاصی رقم جمع ہوگئی ۔
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خِدمت میں حاضر ہوئے ، آپ سے عِطر کی مہک آرہی تھی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش طبعی سے فرمایا ، عبدالرحمٰن یہ کیا ؟
با آدب بولے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے شادی کرلی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : بیوی کو کِتنا مہر دیا ہے ؟
عرض کی : سونے کی ایک ڈلی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ولیمہ کرو ، خواہ ایک بکری ذبح کرو ، اللہ تعالیٰ آپ کے مال و دولت میںبرکت عطاء فرمائے ۔۔۔۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف فرمانے لگے : دُنیا مجھ پر فریفتہ ہے، میں کوئی پتھر بھی اُٹھاتا ہوں تو اس کے نیچے سے سونا اور چاندی ہاتھ لگتا ہے ۔
میدانِ بدر میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرتے ہوئے مقابلے میں آنے والے اللہ کے دُشمن عُمیر بن عُثمان بن کعب کا سَر تن سے جُدا کردیا ۔
غزوہء اُحُد میںیہ اس وقت ثابت قدم رہے جب عام مُجاہدین کے قدم ڈگمگاگئے تھے ، اور یہ اس وقت چٹان کی طرح جمے رہےجب کہ شکست خوردہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے اور ان کے جسم پر آنے والے زخموں میںسے بعض اتنے گہرے تھے کہ ان میں پُورا ہاتھ داخل ہوسکتا تھا ۔
اگر جانی و مالی جہاد کا موازنہ کیا جائے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جانی کی بجائے مالی جہاد میں دو قدم آگے نظر آتے ہیں ۔ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر ترتیب دیا اور صحابہ میںاعلان کیا ۔
“جہاد کے لیے چندہ دو ، میں دُشن کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کرنا چاہتا ہوں۔“
یہ اعلان سُنتے ہی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف جلدی سے اپنے گھر گئے اور اسی وقت واپس لوٹ آئے اور عرض کی :
یار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میںچار ہزار دینار تھے ، دو ہزار آپ کی خِدمت میںپیش کرتا ہوں اور دوہزار اپنے اہل و عیال کے لئے گھر چھوڑ آیا ہوں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر اِرشاد فرمایا : جو تو نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کئے انہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور جو اہل و عیال کے لئے باقی رکھے ان میںبرکت عطاء فرمائے ۔
جب کُفّار کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کی کوئی انتہا نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کو مدینہ طیبہ ہجرت کرجانے کی اجازت دے دی تو یہ ان عالی مقام مُہاجر صحابہ میں سرِ فہرست تھے ، جو سوئے مدینہ دیوانہ وار چلے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارے کی فضاء قائم کی تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد بن ربیع کے مابین رشتہ اخوت قائم ہوا ۔۔۔ حضرت سعد بن ربیع نے اپنے دینی بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے کہا : بھائی جان ! میںاہلِ مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں ، میرے دو باغ ہیں اور دو بیویاں ان میں سے جو باغ آپ کو پسند ہے میںاسے آپ کے نام ہبہ کردیتا ہوں اور ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں تاکہ آپ اس سے شادی کرکے اپنا گھر بسالیں ۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و عیال اور مال میں برکت عطاء فرمائے ۔۔۔ آپ مجھے منڈی کا پتہ بتادیں ، میں وہاں محنت کرکے کماؤںگا، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے مدینہ طیبہ کی منڈی میں تجارت کا پیشہ اپنایا ، اور اس کاروبار میںاللہ تعالیٰ نے اتنی برکت عطاء فرمائی کہ تھوڑے ہی عرصے میںاچھی خاصی رقم جمع ہوگئی ۔
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خِدمت میں حاضر ہوئے ، آپ سے عِطر کی مہک آرہی تھی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش طبعی سے فرمایا ، عبدالرحمٰن یہ کیا ؟
با آدب بولے : حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں نے شادی کرلی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : بیوی کو کِتنا مہر دیا ہے ؟
عرض کی : سونے کی ایک ڈلی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ولیمہ کرو ، خواہ ایک بکری ذبح کرو ، اللہ تعالیٰ آپ کے مال و دولت میںبرکت عطاء فرمائے ۔۔۔۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف فرمانے لگے : دُنیا مجھ پر فریفتہ ہے، میں کوئی پتھر بھی اُٹھاتا ہوں تو اس کے نیچے سے سونا اور چاندی ہاتھ لگتا ہے ۔
میدانِ بدر میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرتے ہوئے مقابلے میں آنے والے اللہ کے دُشمن عُمیر بن عُثمان بن کعب کا سَر تن سے جُدا کردیا ۔
غزوہء اُحُد میںیہ اس وقت ثابت قدم رہے جب عام مُجاہدین کے قدم ڈگمگاگئے تھے ، اور یہ اس وقت چٹان کی طرح جمے رہےجب کہ شکست خوردہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے اور ان کے جسم پر آنے والے زخموں میںسے بعض اتنے گہرے تھے کہ ان میں پُورا ہاتھ داخل ہوسکتا تھا ۔
اگر جانی و مالی جہاد کا موازنہ کیا جائے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جانی کی بجائے مالی جہاد میں دو قدم آگے نظر آتے ہیں ۔ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر ترتیب دیا اور صحابہ میںاعلان کیا ۔
“جہاد کے لیے چندہ دو ، میں دُشن کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کرنا چاہتا ہوں۔“
یہ اعلان سُنتے ہی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف جلدی سے اپنے گھر گئے اور اسی وقت واپس لوٹ آئے اور عرض کی :
یار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میںچار ہزار دینار تھے ، دو ہزار آپ کی خِدمت میںپیش کرتا ہوں اور دوہزار اپنے اہل و عیال کے لئے گھر چھوڑ آیا ہوں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر اِرشاد فرمایا : جو تو نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کئے انہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور جو اہل و عیال کے لئے باقی رکھے ان میںبرکت عطاء فرمائے ۔
0 comments:
Post a Comment