Wednesday 27 March 2013

جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا

سوچتا ہوں تو جھرجھری سی آجاتی ہے، سخت سردیوں کے دن تھے، چھٹیوں میں دادی اماں کا دیا ہوا کھیس لے کر مربعے پہنچے جہاں ’’ویلنا‘‘ چل رہا تھا، گنے چھیلے جا رہے تھے، ان کا رس نکل رہا تھا تاکہ اسے پکایا اور گُڑ بنایا جا سکے۔ دادا جی نے کماد کے خشک پتوں کو جمع کرکے آگ جلانے کی کوشش کی مگر شبنم کے ننھے ننھے قطروں نے انھیں گیلا کر رکھا تھا۔ انھوں نے ہاتھوں کی اوک سی بنائی۔ چند پھونکیں ماریں اور آگ جلا کر بولے بسم اللہ آ جائو اور ہاتھ سینکو۔ پھر اٹھے، ایک دن پہلے رس نکلے گنے کا خشک چُورا اٹھا کر لائے اور آگ کے قریب رکھتے بلکہ بچھاتے ہوئے اشارہ کیا ’’ادھر آجائو اس کے اوپر چوکڑی مار کر بیٹھو، پائوں کے بَل بیٹھو گے تو تھک جائو گے۔‘‘ پھر انھوں نے مزارع کے لڑکے سے کہا ۲،۳ صاف صاف گنے لائو پھر کماد چھیلنے والے ٹوکے سے بیچ میں سے ۲ حصوں میں تقسیم کیا اور مسکراتے ہوئے بولے ’’کاکا! تیرے کولوں تے ثابت گنا چھلیا وی نہیں سی جانا، اے لے مزے نال چِھل تے چُوپ۔‘‘
دادا ویلنے میں گنے لگا رہے تھے۔ میں کچھ دیر بعد قریب جا کر بیٹھ گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بیل چکر لگاتے ہوئے قریب آئے تو لکڑی کی گاٹی کو آتے دیکھ کر بولے ’’بیٹا! جب یہ قریب آئے تو سر نیچے کر لینا۔‘‘ میں نے پہلا سوال کیا تھا ’’میاں جی! اتنے منہ اندھیرے آجاتے ہیں۔ ڈر نہیں لگتا۔‘‘جواب کے بجائے اُلٹا انھوں نے سوال کردیا تھا ’’کس چیز کا ڈر؟‘‘
’’بیٹا اتنا تو سکون ہوتا ہے، میں تو نماز بھی یہاں آ کر پڑھتا ہوں۔ اس وقت تو رب سوہنا خود پہلے آسمان پر آیا ہوتا ہے، خیر ہی خیر۔‘‘ وہ سامنے کھالے سے وضو کرکے یہاں ’’کھوری‘‘ بچھائی، اوپر اپنی لوئی (گرم چادر) ڈالی۔ کبھی جو کھیس کا بُکل مارا ہوا ہو تو پھر یہاں بوری رکھی ہوئی ہے۔ اس کو سیدھا کرلیا اور نماز پڑھ کر کام شروع کردیا۔‘‘
ان کے کام اور ہدف میں جس ڈر کو میں رکاوٹ سمجھ کر حیرت سے پوچھ رہا تھا، اس کا ان کی زندگی کی صبح اور شاموں میں ہی نہیں سوچ میں بھی کوئی دخل نہیں تھا۔ ’’میاں جی! کوئی چور اچکا، کوئی سانپ، کوئی گیدڑ، کوئی اوندھا سور (پِگ ) اسی نام سے بلایا جاتا ۔سامنے آجائے تو ۔۔۔۔۔۔ وہ ہنس پڑے اور جواب دینے سے پہلے ان کی نظر چھِلے ہوئے گنوں کی ایک ڈھیری کی طرف گئی۔ وہ لپک کر گئے او ایک موٹی رسی کو ایک سائیڈ سے پکڑ کر ۳،۴ مرتبہ زمین پر مارا، پھر مجھے آواز دی۔
سوچتا ہوں تو اب بھی جھرجھری سی آجاتی ہے۔ وہ ۴، ۵ فٹ لمبا سانپ تھا جسے انھوں نے چند سیکنڈ میں مار دیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ میں اسے ہاتھ لگا کر دیکھوں، اٹھا کر زمین پر ماروں۔ میں باوجود کوشش کے یہ نہ کر سکا اور نتیجتاً آج تک سانپ سے خوف کھاتا ہوں۔ میرے اپنے بچے عید پر گھر آئے بکرے کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ انھیں ہاتھ پکڑ پکڑ کر بکرے کی کمر پر لگا کر بتانا پڑتا ہے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں مگر ذہن میں بیٹھے کسی بھی چیز کے ان دیکھے ڈر کو دور کرنا آسان نہیں ہوتا۔
کچھ ڈر تو انسان کے اندر ہی ہوتے ہیں اور کچھ چیزوں، لوگوں، رشتوں اور خطروں کے خوف وراثت کی طرح بڑوں سے منتقل ہوتے ہیں۔جس جس چیز سے گھر کے بڑے لوگ ڈراتے ہیں وہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ دادا بتانے لگے ’’گیدڑ تو انسانوں کو دیکھ کر اپنے ڈر کے باعث خود ہی بھاگ جاتا ہے۔ ہاں کبھی کسی بگھیاڑ (بھیڑیا) سے واسطہ پڑے تو اسے ڈرانا پڑتا ہے۔ سور کبھی اکیلے دکیلے اور کبھی پورے خاندان کے ساتھ کماد اور دوسری فصلوں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو انھیں دیکھ کر ہم لوگ کھیت چھوڑ کر گھر تھوڑی آ جاتے ہیں کہ نقصان کرکے خود ہی چلے جائیں اور ان کا سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔ پتا چل جائے کہ کدھر ہیں، کس کے مربعے، کس کی فصلوں میں تو ۴، ۶ لوگ مل کر پہنچ جاتے ہیں۔ گائوں بھر کے بچے پیچھے شور مچاتے آجاتے ہیں۔ بندوق نہ بھی ہو تو ڈنڈے سوٹے بہت ہم، اپنا نقصان نہیں ہونے دیتے۔‘‘
میں نے گھبراہٹ میں پوچھا ، میاں جی! وہ تو سنا ہے حملہ بھی کر دیتا ہے۔ ہاں وہ ناک کی سیدھ میں آتا ہے۔ احتیاط نہ کی جائے اور آخری لمحے ایک دم سائیڈ پر نہ ہٹ جایا جائے تو اپنی تھوتھنی میں چھپے دانتوں سے پیٹ پھاڑ دیتا ہے۔ ماسٹرشریف ایک بار اپنی اکلوتی بندوق اور شور مچاتے کئی لڑکے بالوں کے ساتھ اوندھوں کے ایک خاندان کے پیچھے کافی دور تک گیا تھا۔ ایک دو مار ڈالے۔ ایک نے راستہ نہ پا کر گھبراہٹ میں جوابی حملہ کردیا۔ ماسٹرشریف کی غلطی کہ اپنا بروقت بچائو نہیں کرسکا کہ اس سے گولی چلی نہ وہ سائیڈ پر ہٹا۔ ماسٹرشریف بہرحال ہیروبن گیا کہ وہ اس سے گتھم گتھا ہوگیا تھا۔ اسے پیٹ پر زخم آیا۔ اتنی دیر بعد لوگ پہنچ گئے۔ انھوں نے اس نامراد کو ڈنڈوں سے مار ڈالا۔‘‘
میاں جی کے پاس ہر سوال اور مسئلے کا سیدھا سادا فوری حل ہوتا تھا۔ ایک دو حل ایسے بھی تھے جو مجھے پسند نہیں آئے مثلاً ایک بار خربوزوں کے موسم میں گئے تو انھوں نے پوچھا خربوزہ کھائو گے۔ جواب دیا میاں جی نہ چھری نہ پلیٹ کیسے کھائیں گے؟ وہ بیری کے نیچے بچھی ڈھیلی سی چارپائی سے اُٹھے، قریبی کھیت سے پکا ہوا خربوزہ توڑا۔ اپنی چادر سے صاف کیا۔ دونوں ہاتھوں کے بیچ میں رکھ کر زور دیا اور اس غریب کو بغیر کسی چھری کے چار حصوں میں تقسیم کر ڈالا۔ وہ حیرت آج تک نہیں گئی۔ تازہ گاجر مولی کو زمین سے نکال کر اس کے اپنے پتوں سے صاف کرکے دھوئے بغیر کچر کچر کھانے کی دعوت دیتے اور انھیں کھاتے تو ہم نے کئی بار دیکھا۔
فخود کو حفظانِ صحت کے اصولوں کو یاد کرکے کھانے سے محروم رکھنے کا افسوس بھی نہیں جاتا۔ گھر میں دادی، چچی حتیٰ کہ ان کے بچوں کو بیلوں، بھینسوں، کتے، بلیوں سے کبھی ڈرتے نہ دیکھا۔ بھاگتے ٹھوئیں (بچھو) کو تو ہماری دادی اپنی جوتی اتار کر مار دیتی تھیں۔ وہ یہ معرکہ بغیر جوتی کے اپنی ننگی ایڑی کی مدد سے بھی انجام دے چکی تھیں ۔
اندھیرے اور ان دیکھی ہر چیز سے ڈرنے والوں کے دل میں جس ذات کا خوف یا احساس ہونا چاہیے۔ وہ اب وراثت میں بھی نہیں ملتا۔ اندھیرے کا خوف بھی ہے مگر اندھیرے کے مالک کا نہیں۔ اب روزمرہ زندگی میں بچوں کو چوہے بلی سے لے کر کاکروچ اور چھپکلی تک سے ڈرتے اور ڈر کر بھاگتے دیکھ کر اپنے دادا اور ان کے آس پاس پلے بڑھے بچے یاد آتے ہیں تو حیرت دوچند ہوجاتی ہے۔
جس جس چیز کے خطرے اور نقصان کے احساس کا ہم سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں وہی خوف بن کر ڈرانے لگتا ہے۔ شہروں میں مائوں کے پاس ڈرانے دھمکانے کے لیے اندھیرے کے جن، چڑیل سے زیادہ (کہ ان سے وہ خود بھی ڈرتی ہیں) بلی کھا جائے گی۔ کتا آ جائے گا قسم کے جملے، دھیرے دھیرے خوف بن کر زندگی کا یوں حصہ بنتے ہیں کہ کاکروچ دیکھ کر بچے ہی نہیں عورتیں بھی چیختی ہوئی بیڈ پر چڑھ جاتی اور چھپکلی دیکھ کر چیخیں مارنے لگتی ہیں۔ ہم اپنے جوتے اتار کر چھپکلیوں کے پیچھے بھاگتے اور نشانے لگا لگا کر مارتے تھے۔ جب جب کوئی چھپکلی نشانے پر آجاتی تو بے جی سے نقد انعام ملتا۔
کبھی کبھی دل اس بات سے بہت ڈرتا ہے کہ جس کا خوف کھانا چاہیے تھا اس سے ڈرنا کسی نے سیکھایا ہی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ چھوٹے بڑے خوف اپنی جگہ پر سانپ بن کر ڈراتے رہتے ہیں اور موسیٰ کا عصا ہاتھ میں ہونے کے باوجود جو ان سانپوں کو کھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، ڈرتے رہتے ہیں۔ اپنے رب سے محبت تو دور رہی۔ اس کا خوف کسی بڑے نے نہ سکھایا نہ پڑھایا، نہ اس کی ناراضی اور گرفت سے ڈرایا۔
سچ ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا لیکن جو اللہ سے ڈرنا چھوڑ دے اسے دنیا کی ہر چیز ڈراتی ہے

0 comments:

Post a Comment