(۳)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کامل ہے اور نعمتیں تمام:
رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا oسلام دینا
ترجمہ: میں تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دین کا اکمال یہ ہے کہ وہ اگلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا ، اکمالِ دین سے مراد یہ ہے کہ دین کو ایک مستقل نظامِ زندگی اور مکمل دستورِ حیات بنا دیا گیا جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا وجاب اصولاً یا تفصیلاً موجو دہے، اور ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت نہیں، اور نعمت تمام کرنے سے مراد اسی دین کی تکمیل ہے اور اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کی طرف سے قانونِ الٰہی کی تعمیل اور حدودِ شریعت پر قائم رہنے میں بندوں کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ یقین رکھیں کہ انہیں درجہ قبولیت اسی شریعت کی اتباع سے حاصل ہوگا۔
مختصراًیوں کہنا چاہیے کہ جب انسان اپنے عقل و شعور میں حدِ بلوغ تک پہنچ گیا یا اس کے سامان پوری طرح مہیا ہو گئے ، تب نبوت ور سالت کو بھی حدِ کمال و تمام تک پہنچا کر ختم کر دیا گیا اور رشد و ہدایت کو رہتی دنیا تک اس طرح باقی رکھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے جو آخری پیغام کامل و مکمل بن کر آیا اسے تمام احکام و قوانین اور ہر دستورِ حیات کے لیے اساس و بنیاد بنا دیا۔
ظاہر ہے کہ اگر نبوت و رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچ کر ختم نہ ہوتی اور اس کا سلسلہ کمالِ نبوت ہی کی شکل میں آگے بڑھتا رہتا ، تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت کا حکم نہ دیا جاتا بلکہ خطاب یہ ہوتا کہ جو نبی تمہارے زمانہ میں موجود ہو اس کی اتباعِ کرو جبکہ قرآنِ مجید صاف صاف لفظوں میں بار بار ، جگہ جگہ یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ اب انسانی رشدو ہدایت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔
بفرضِ غلط اگر ختمِ نبوت کی تصریح قرآنِ کریم یا حادیثِ صحیحہ میں نہ بھی ہوتی جب بھی یہی آیۃ کریمہ (الیوم اکملت لکم) اس عقیدہ کی بنیاد کو کافی تھی کہ جب کوئی درجہ مزید تعلیم اور اصلاح کا باقی ہی نہ رہا تو اب کسی نئے نبی کی ضرورت ہی کیا رہی کہ دین کامل ہے اور قرآن اگلی شریعتوں کا ناسخ ، اب نہ کسی دین کی ضرورت ہے نہ کسی کتابِ قانون کی حاجت، والحمد للہ رب العالمین۔
رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا oسلام دینا
ترجمہ: میں تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دین کا اکمال یہ ہے کہ وہ اگلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا ، اکمالِ دین سے مراد یہ ہے کہ دین کو ایک مستقل نظامِ زندگی اور مکمل دستورِ حیات بنا دیا گیا جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا وجاب اصولاً یا تفصیلاً موجو دہے، اور ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت نہیں، اور نعمت تمام کرنے سے مراد اسی دین کی تکمیل ہے اور اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کی طرف سے قانونِ الٰہی کی تعمیل اور حدودِ شریعت پر قائم رہنے میں بندوں کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ یقین رکھیں کہ انہیں درجہ قبولیت اسی شریعت کی اتباع سے حاصل ہوگا۔
مختصراًیوں کہنا چاہیے کہ جب انسان اپنے عقل و شعور میں حدِ بلوغ تک پہنچ گیا یا اس کے سامان پوری طرح مہیا ہو گئے ، تب نبوت ور سالت کو بھی حدِ کمال و تمام تک پہنچا کر ختم کر دیا گیا اور رشد و ہدایت کو رہتی دنیا تک اس طرح باقی رکھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے جو آخری پیغام کامل و مکمل بن کر آیا اسے تمام احکام و قوانین اور ہر دستورِ حیات کے لیے اساس و بنیاد بنا دیا۔
ظاہر ہے کہ اگر نبوت و رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچ کر ختم نہ ہوتی اور اس کا سلسلہ کمالِ نبوت ہی کی شکل میں آگے بڑھتا رہتا ، تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت کا حکم نہ دیا جاتا بلکہ خطاب یہ ہوتا کہ جو نبی تمہارے زمانہ میں موجود ہو اس کی اتباعِ کرو جبکہ قرآنِ مجید صاف صاف لفظوں میں بار بار ، جگہ جگہ یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ اب انسانی رشدو ہدایت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔
بفرضِ غلط اگر ختمِ نبوت کی تصریح قرآنِ کریم یا حادیثِ صحیحہ میں نہ بھی ہوتی جب بھی یہی آیۃ کریمہ (الیوم اکملت لکم) اس عقیدہ کی بنیاد کو کافی تھی کہ جب کوئی درجہ مزید تعلیم اور اصلاح کا باقی ہی نہ رہا تو اب کسی نئے نبی کی ضرورت ہی کیا رہی کہ دین کامل ہے اور قرآن اگلی شریعتوں کا ناسخ ، اب نہ کسی دین کی ضرورت ہے نہ کسی کتابِ قانون کی حاجت، والحمد للہ رب العالمین۔
0 comments:
Post a Comment