ابو جہل کی موت
’ابوجہل کی شرارت اور اسلام
دشمنی کا عام چرچا تھا اس بنا پر انصار میں سے دو بھائیوں معاذ اور معوذ
رضی اللہ عنہم اجمعین (جو ابھی بچے ہی تھے ) نے عہد کیا تھا کہ یہ شقی جہاں
نظر آئے گا اس کو مٹادیں گے
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزوۂ بدرمیں صف میں تھا کہ دفعتاً مجھ کو دائیں بائیں دو نوجوان نظرآئے اورمجھ سے کان میں پوچھا :چچاجان ابوجہل کون ہے؟
میں نے کہا برادر زادے ابوجہل کو پوچھ کر کیا کرے گا؟ بولا میں نے خدا سے عہد کر رکھا ہے کہ ابوجہل کو جہاں دیکھوں گا اسے قتل کرکے چھوڑوں گا میں ابھی جواب نہیں دے پایا تھا کہ دوسرے نوجوان نے مجھ سے کان میں یہی بات کہی میں نے دونوں کو اشارے سے بتایا کہ ابوجہل وہ ہے یہ بتانا تھا کہ دونوں باز کی طرح جھپٹے اورابو جہل پر حملہ کردیا تھوڑی دیر میں ہی ابوجہل خاک پرتھا۔ یہ جوان عفرا کے بیٹے تھے غزوہ ختم ہونے پرحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی جا کرخبر لائے کہ ابوجہل کا کیا انجام ہوا؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جا کرلاشوں میں دیکھا تو زخمی پڑا ہوا دم توڑ رہا تھا بولے تو ابوجہل ہے اس نے کہا ایک شخص کو اس کی قوم نے قتل کردیا تو یہ فخرکی کیا با ت ہے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی گردن پرپائوں رکھااور چھلانگ لگا کر اس کی چھاتی پرچڑھ بیٹھے
ابوجہل نے کہا: اوبکری چرانے والے !دیکھ تو کہاں پاؤں رکھتا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ تو وہ وقت بھول گیا جب میں بفرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے وعیدکی آیت لے کرتیرے پاس گیا تھا تو تو نے مجھے تھپڑ مارا تھا اور لاتوں سے خوب پیٹاتھا اب تیری ذلت کاسامان میرے ہاتھوں ہی ہوگا۔
’’ابوجہل نے پوچھا: فتح کس کی ہوئی؟
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
ابوجہل کہنے لگا: اپنے نبی سے کہنا کہ میں اپنے مذہب پر اب بھی قائم ہوں اورتجھ پرایمان نہیں لایا اور کہا کہ میرا سرذرا گردن کے نچلے حصے سے کاٹنا تاکہ قریش کے بقیہ سرداروں میں میرا سر اونچا دکھائی دے اور کہا کاش میرا سر کوئی ہاشمی جوان کاٹتا۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کا سر کاٹ کر اس کی ناک میں رسی ڈال دی اورپیشانی کے بل گھسیٹتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی اس کیفیت کوپہلے ہی بیان فرمادیا تھا۔
’’ہاں ہاں اگر بازنہ آیا تو ضرور ہم پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے کیسی پیشانی، جھوٹی،خطاکار۔‘‘
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ غزوۂ بدرمیں صف میں تھا کہ دفعتاً مجھ کو دائیں بائیں دو نوجوان نظرآئے اورمجھ سے کان میں پوچھا :چچاجان ابوجہل کون ہے؟
میں نے کہا برادر زادے ابوجہل کو پوچھ کر کیا کرے گا؟ بولا میں نے خدا سے عہد کر رکھا ہے کہ ابوجہل کو جہاں دیکھوں گا اسے قتل کرکے چھوڑوں گا میں ابھی جواب نہیں دے پایا تھا کہ دوسرے نوجوان نے مجھ سے کان میں یہی بات کہی میں نے دونوں کو اشارے سے بتایا کہ ابوجہل وہ ہے یہ بتانا تھا کہ دونوں باز کی طرح جھپٹے اورابو جہل پر حملہ کردیا تھوڑی دیر میں ہی ابوجہل خاک پرتھا۔ یہ جوان عفرا کے بیٹے تھے غزوہ ختم ہونے پرحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ کوئی جا کرخبر لائے کہ ابوجہل کا کیا انجام ہوا؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جا کرلاشوں میں دیکھا تو زخمی پڑا ہوا دم توڑ رہا تھا بولے تو ابوجہل ہے اس نے کہا ایک شخص کو اس کی قوم نے قتل کردیا تو یہ فخرکی کیا با ت ہے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی گردن پرپائوں رکھااور چھلانگ لگا کر اس کی چھاتی پرچڑھ بیٹھے
ابوجہل نے کہا: اوبکری چرانے والے !دیکھ تو کہاں پاؤں رکھتا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ تو وہ وقت بھول گیا جب میں بفرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے وعیدکی آیت لے کرتیرے پاس گیا تھا تو تو نے مجھے تھپڑ مارا تھا اور لاتوں سے خوب پیٹاتھا اب تیری ذلت کاسامان میرے ہاتھوں ہی ہوگا۔
’’ابوجہل نے پوچھا: فتح کس کی ہوئی؟
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
ابوجہل کہنے لگا: اپنے نبی سے کہنا کہ میں اپنے مذہب پر اب بھی قائم ہوں اورتجھ پرایمان نہیں لایا اور کہا کہ میرا سرذرا گردن کے نچلے حصے سے کاٹنا تاکہ قریش کے بقیہ سرداروں میں میرا سر اونچا دکھائی دے اور کہا کاش میرا سر کوئی ہاشمی جوان کاٹتا۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کا سر کاٹ کر اس کی ناک میں رسی ڈال دی اورپیشانی کے بل گھسیٹتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی اس کیفیت کوپہلے ہی بیان فرمادیا تھا۔
’’ہاں ہاں اگر بازنہ آیا تو ضرور ہم پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے کیسی پیشانی، جھوٹی،خطاکار۔‘‘
(طبری جلداول ص۸۷) (سیرت النبی مصنفہ شبلی نعمانی جلداول ص ۳۲۵)
0 comments:
Post a Comment