Tuesday 7 May 2013

British New Muslim's Spirit To Do Hajj

Posted by Unknown on 10:34 with No comments
برطانوی نومسلم کا جذبۂ حج

یہ ایک برطانوی نومسلم ’’ڈیوڈکیل‘‘ کی کہانی ہے۔ اس نے ۱۹۳۵ء میں عیسائیت کو ترک کرکے اسلام قبول کیا اور اپنا نام عبدالرحمن رکھ لیا تھا۔ عبدالرحمن نے فیصلہ کیا کہ اسے فوری طور پر حج کرلینا چاہیے۔ ابھی مذہب تبدیل کیے ہوئے محض 6 ہفتے ہی گزرے تھے کہ اس نے اپنی بیوی ’’مُنیرہ‘‘ (پیدایشی ملائیشیائی مسلم خاتون) کے ساتھ ’’سراوک‘‘ ملائیشیا سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔

اب اس نے تہیہ کیا کہ اپنی مسلم بیوی کے ساتھ حج کے لیے ضرور جائے گا۔ اس ضمن میں معلومات حاصل کرتے ہوئے اسے یہ سن کر کچھ صدمہ سا ہوا کہ حج کرنا بہرحال کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں۔ لاتعداد رکاوٹیں ہیں جو اس کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں لیکن اس نے تہیہ کیا کہ حج کے راستے کی ہر رکاوٹ وہ لازماً عبور کرکے رہے گا۔
چنانچہ حجاز کے ویزے کے لیے اس نے سنگاپور سے درخواست دائر کی۔ (اس دور میں ملایا اور سنگاپور ایک ہی ملک تھے) لیکن اسے وہاں سے ویزا نہ مل سکا۔

تب یہ دونوں میاں بیوی عبدالرحمان کے آبائی شہر لندن چلے گئے تاکہ وہاں کے سعودی دفاتر سے مطلوبہ ویزا حاصل کر سکیں۔ تاہم عبدالرحمٰن کو یہاں بھی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسے بتایا گیا کہ سعودی قوانین کے تحت اسلام قبول کر لینے کے کہیں ۶ سال بعد ہی جا کر کسی غیر مسلم کو حج کا اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔ (اُس دور میں سعودی عرب کا قانون یہی تھا)۔ جبکہ اسلام قبول کیے ہوئے اسے ابھی صرف ۶ ہفتے ہی ہوئے تھے۔ سعودی افسر نے انہیں بتایا کہ بہر حال انھیں جدّہ کا ویزا جاری کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن وہ بھی اس شرط پر کہ وہ وہاں ۶ سال کا طویل عرصہ گذارے۔یعنی جدّہ سے مکے و مدینے جانے کا خیال وہ فوراً دل میں نہ لائے۔

عبدالرحمٰن نے افسران پر واضح کیا کہ سراوک ملائیشیا سے اپنی بیوی کے ہمراہ وہ محض حج کی ادائی کی خاطر ہی لندن پہنچا ہے۔ جب افسروں پر واضح ہوا کہ اس کے ساتھ اس کی پیدائشی مسلم خاتون(بیوی) بھی ہے تو انھوں نے اس کی بیوی کے لیے حج ویزا جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عبدالرحمن نے کہا کہ عورت ہونے کے باعث اس کی بیوی سفر اور فرائض حج کی ادائی تنہا نہیں کر سکتی۔ ’’ہمیں تمھاری مشکلات کا اندازہ ہے،اسی لیے ہم تمھیں جدہ کا ویزہ جاری کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جدہ پہنچ کر یہ تمھاری ذمے داری ہو گی کہ شہر کے حکام کو اپنی مشکلات اور شوق کے بارے میں آگاہ کرو، اور بتاؤ کہ تنہا تمھاری بیوی حج کی ادائی نہیں کر سکے گی‘‘۔ افسران نے اسے آگاہ کیا۔

آخر کار وہ دن آہی گیا جب انکا جہاز جدہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ میاں بیوی نے جدہ کے ایک بلندو بالا ہوٹل کی پانچویں منزل پر کرائے پر کمرہ حاصل کیا۔ چاول اور کھجور کا ناشتہ کرتے ہی وہ دونوں جدہ پولیس اسٹیشن کی طرف بھاگے جہاں(اس وقت کے) دستور کے مطابق ان کے’ جوازات السفر‘ (پاسپورٹس) کی چھان بین کی جانی تھی۔ چند ضروری سوالات و جوابات کے بعد عبد الرحمٰن کو بتایا گیا کہ ان کے کاغذات پہلے پولیس کے سربراہ کو بھیجے جائیں گے جہاں سے پھر وہ انھیں امیرِ جدہّ کے پاس روانہ کرے گا۔ تسلی کے بعد امیرِ جدہ ان کاغذات کو آگے امیرِ مکہ کو ارسال کر دیںگے تاکہ دونوں میاں بیوی کے مکہ میں داخلے کی اجازت حاصل کی جا سکے۔

’’اس سارے عمل میں آپ کو کتنا عرصہ درکار ہو گا؟‘‘ عبدالرحمٰن نے سوال کیا لیکن پولیس حکام نے جواب میں محض اپنے کندھے اُچکادینے پر ہی اکتفا کیا جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اس سوال کا جواب انھیں بھی معلوم نہیں ہے۔

دن تیزی کے ساتھ گزرتے چلے جا رہے تھے اور اس کی تشویش میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ کاغذات کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع اس کے سامنے نہیں آ رہی تھی۔ ایک دن محمد صالح اسے لے کر براہِ راست امیرِجدہ کے پاس پہنچ گیا جس نے عبدالرحمن کے جذبوں کی قدر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے کاغذات مکہ کے حکام کے پاس بھیج دیے گئے ہیں، تاہم کاغذات کی واپسی تک اسے بہرحال انتظار کرنا ہی ہوگا۔ امیرِجدہ نے البتہ یہ یقین دہانی اسے ضرور کرا دی کہ اس معاملے میں وہ ان تک اپنی سفارش لازماً پہنچا دے گا۔
حج کے دن قریب تر چلے آ رہے تھے اور جدہ عازمین حج سے خالی ہوتا جا رہا تھا۔ مختلف گاڑیاں حاجیوں کو لے لے کر مکہ کی جانب روانہ ہو رہی تھیں۔ اسی دوران ایک دن صالح محمد اچانک خوشی خوشی اس کے پاس آیا اور خوشخبری دی کہ شاہِ سعودیہ نے کاغذات میں اس کے مسلمان ہونے کی ذاتی تصدیق بھی کر دی ہے۔ یہ خوش خبری اپنی جگہ لیکن ان دونوں میاں بیوی کے مکہ میں داخلے کی اجازت تاحال معلق تھی۔ اب اسے عبدالرحمن کی خوش قسمتی ہی کہنا چاہیے کہ انہی دنوں شاہِ سعودیہ اتفاقاً جدہ آ رہے تھے۔ محمد صالح نے اسے بتایا کہ بادشاہ سے صرف ایک ملاقات ہی اس کے سارے مسئلے حل کر دے گی! چنانچہ محمد صالح کی جدوجہد کے نتیجے میں ایک دن اس کی ملاقات بادشاہ کے ساتھ بالآخر کروا ہی دی گئی۔

’’بات یہ ہے۔‘‘ شاہِ سعودیہ اس سے گویا ہوئے۔ ’’شہرِمکہ کو مشرکوں اور کافروں سے محفوظ رکھنے کی خاطر ہی ہم نے قانون بنایا ہے کہ جب تک کسی نو مسلم کو اسلام قبول کیے ہوئے6 سال کا عرصہ نہ گزر جائے، اور یہ عرصہ بھی ہمارے حکام کے سامنے اس نے جدہ میں گزارا ہو، اس وقت تک اسے حج و عمرہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ شاہ نے مزید کہا ’’لہٰذا جب تک میں اپنے مشیروں سے مشورہ نہ کرلوں، تمہارے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں دے سکتا، البتہ معاملہ جلد از جلد نمٹائے جانے کا وعدہ ضرور کرتا ہوں۔‘‘
شہرِجدہ اب حاجیوں سے تقریباً خالی ہو چکا تھا کیونکہ حج شروع ہونے میں محض ۲ دن باقی رہ گئے تھے۔ عین اسی لمحے عبدالرحمن کا دوست محمد صالح اس کے پاس دوڑا دوڑا آیا اور خوش خبری سنائی کہ بادشاہ نے اسے اپنی اہلیہ کے ہمراہ مکہ تک سفر کی اجازت بھی مرحمت فرما دی ہے جبکہ امیرِجدہ نے حکامِ مکہ کو فون کرکے شاہ کے اس فیصلے سے آگاہ بھی کردیا ہے۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ عبدالرحمن اور منیرہ کو مکہ تک پہنچنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔ تاہم ایک بڑی رکاوٹ ان دونوں کا ابھی مزید انتظار کر رہی تھی اور وہ تھی ذریعۂ سفر کے حُصول کی۔

اگلے دن فجر کے وقت روانہ ہو جانے کے لیے وہ دونوں تیار بیٹھے تھے اور جدہ اور مکہ کے درمیان کم از کم فاصلہ بھی ۷۰ میل (۱۱۲ کلومیٹر) کا تھا۔ بروقت پہنچنے کی خاطر زائرین کے پاس اگرچہ کار ہی ذریعۂ سفر تھی لیکن افسوسناک طور پر جدہ میں اس وقت کوئی ایک کار بھی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ہر دستیاب کار زائرین اپنے استعمال میں لے چکے تھے۔ عبدالرحمن سوچ میں پڑ گیا۔ ایک مشکل بڑی مشکل سے حل ہوتی تھی کہ کوئی دوسری مشکل ان کے سامنے آن کھڑی ہوتی تھی۔ مکہ کیسے پہنچا جائے؟ وہ سوچ میں پڑ گیا۔ آخرکار اس نے ایک چھوٹا سا کھٹارا ٹرک کرائے پر حاصل کیا جس میں دونوں طرف لکڑی کی بینچیں نصب تھیں لیکن ایک مشکل یہاں بھی تھی کہ ڈرائیور کو صرف جدہ کی حدود میں ڈرائیونگ کی اجازت تھی۔ تاہم اس نے بھاگ دوڑ اور بہت منت سماجت کے بعد پولیس افسران سے بالآخر مکہ تک ڈرائیونگ کرنے کی خصوصی اجازت بھی حاصل کر ہی لی۔ چنانچہ اب میاں بیوی دونوں نے احرام باندھا، سوٹ کیس ٹرک پر لادے اور سوئے مکہ عازمِ سفر ہوگئے۔ ’’جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‘‘ عبدالرحمن نے سوچا۔

اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر ہچکولے کھاتے ہوئے ان کا ’’ٹرک‘‘ جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا تھا، لبیک لبیک کی صدائیں لگاتے ہوئے کئی قافلے انہیں پیدل بھی رواں دواں نظر آتے تھے۔ ہمدردی کے پیشِ نظر عبدالرحمن نے ان میں سے بعض کمزور اور بیمار زائرین کو اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔ جب وہ سب مکہ میں داخل ہوئے تو انہیں مسجدِ حرام کے مینار دور ہی سے دکھائی دینے لگے۔ ٹرک کو کسی مناسب مقام پر کھڑا کرکے وہ دونوں میاں بیوی چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزرتے مسجدِ حرام کی طرف بڑھنے لگے جو دنیا بھر کے زائرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ فوری طور پر وہ ان لوگوں میں جا شامل ہوئے جو خانۂ کعبہ کے گرد طواف میں مصروف تھے۔ اور پھر انہوں نے تمام حجاج کرام سے مل کر حج کے باقی ارکان ادا کیے
عبدالرحمن یہ سارا عمل انتہائی حیرت اور خوشگواری کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی منیرہ اس سارے دورانیے میں بہت بہادر عورت ثابت ہوئی تھی کیونکہ عورت ہونے کے باوجود اس نے ہمت، سکون اور دانش مندی کا ثبوت دیا تھا۔ حج کے اختتام پر عبدالرحمن نے محسوس کرلیا تھا کہ اگر ایک طرف اس کا یہ سفر اپنے اختتام پر پہنچ رہا تھا تو دوسری طرف اس کی نئی زندگی کے لیے وہ آغازِ سفر بھی بن رہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی محسوس کرلیا تھا کہ حج کی خاطر برداشت کی جانے والی اس کی اب تک کی تمام تکالیف، قربانیاں اور جدوجہد اُس خوشی کے مقابلے میں بالکل ہیچ ثابت ہو رہی ہیں جو حج کے فریضے کی ادائی کے بعد اس نے اپنے قلب و رُوح میں محسوس کی ہے۔
پھر اس کا یہ کہنا بھی بالکل ٹھیک تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے شاملِ حال نہ ہوتی تو ناممکن تھا کہ اتنے مختصر ترین وقت میں وہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجودحج کا اہم فریضہ ادا کرسکتا۔ عبدالرحمن کے سفرِ حج کی یہ کہانی بظاہر یہاں ختم ہو تی ہے مگر اس نومسلم کا پختہ ایمان، جوش اور ولولہ دیکھ کر ہم پیدایشی مسلمانوں کا سرد اور کمزور جذبۂ ایمان بہت کم تر دِکھائی دیتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment