Sunday, 30 June 2013

ہجرت کا دوسرا سال

لڑائیوں کا سلسلہ

اب تک حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے صرف یہ حکم تھا کہ دلائل اور موعظۂ حسنہ کے ذریعہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہیں اور مسلمانوں کو کفار کی ایذاؤں پر صبر کا حکم تھا اسی لئے کافروں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، مگر مسلمانوں نے انتقام کے لئے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا بلکہ ہمیشہ صبر و تحمل کے ساتھ کفار کی ایذاؤں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے لیکن ہجرت کے بعد جب سارا عرب اور یہودی ان مٹھی بھر مسلمانوں کے جانی دشمن ہو گئے اور ان مسلمانوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینے کا عزم کر لیا تو خداوند قدوس نے مسلمانوں کو یہ اجازت دی کہ جو لوگ تم سے جنگ کی ابتدا کریں ان سے تم بھی لڑ سکتے ہو۔

چنانچہ ۱۲ صفر ۲ ھ تواریخ اسلام میں وہ یادگار دن ہے جس میں خداوند پردگار نے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں تلوار اٹھانے کی اجازت دی اور یہ آیت نازل فرمائی کہ

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ط اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرٌ

جن سے لڑائی کی جاتی ہے (مسلمان) ان کو بھی اب لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ (مسلمان) مظلوم ہیں اور خدا ان کی مدد پر یقینا قادر ہے۔

حضرت امام محمد بن شہاب زہری علیہ الرحمۃ کا قول ہے کہ جہاد کی اجازت کے بارے میں یہی وہ آیت ہے جو سب سے پہلے نازل ہوئی۔ مگر تفسیر ابن جریر میں ہے کہ جہاد کے بارے میں سب سے پہلے جو آیت اتری وہ یہ ہے :۔

وَفِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ
قَاتِلُوْا الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَکُمْ
(بقره)

خدا کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم لوگوں سے لڑتے ہیں۔

بہر حال ۲ ھ میں مسلمانوں کو خداوند تعالیٰ نے کفار سے لڑنے کی اجازت دے دی مگر ابتداء میں یہ اجازت مشروط تھی یعنی صرف انہیں کافروں سے جنگ کرنے کی اجازت تھی جو مسلمانوں پر حملہ کریں۔ مسلمانوں کو ابھی تک اس کی اجازت نہیں ملی تھی کہ وہ جنگ میں اپنی طرف سے پہل کریں لیکن حق واضح ہو جانے اور باطل ظاہر ہو جانے کے بعد چونکہ تبلیغ حق اور احکام الٰہی کی نشر و اشاعت حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر فرض تھی اس لئے تمام اُن کفار سے جو عناد کے طور پر حق کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے جہاد کا حکم نازل ہو گیا خواہ وہ مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کریں یا نہ کریں کیونکہ حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد حق کو قبول کرنے کے لئے مجبور کرنا اور باطل کو جبراً ترک کرانا یہ عین حکمت اور بنی نوع انسان کی صلاح و فلاح کے لئے انتہائی ضروری تھا۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ہجرت کے بعد جتنی لڑائیاں بھی ہوئیں اگر پورے ماحول کو گہری نگاہ سے بغور دیکھا جائے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب لڑائیاں کفار کی طرف سے مسلمانوں کے سر پر مسلط کی گئیں اور غریب مسلمان بدرجۂ مجبوری تلوار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ مثلاً مندرج ذیل چند واقعات پر ذرا تنقیدی نگاہ سے نظر ڈالیے۔

(۱)
حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر انتہائی بیکسی کے عالم میں مدینہ چلے آئے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کفار مکہ اب اطمینان سے بیٹھ رہتے کہ ان کے دشمن یعنی رحمت عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمان ان کے شہر سے نکل گئے مگر ہوا یہ کہ ان کافروں کے غیظ و غضب کا پارہ اتنا چڑھ گیا کہ اب یہ لوگ اہل مدینہ کے بھی دشمن جان بن گئے۔ چنانچہ ہجرت کے چند روز بعد کفار مکہ نے رئیس انصار ”عبدﷲ بن ابی” کے پاس دھمکیوں سے بھرا ہوا ایک خط بھیجا۔ ”عبدﷲ بن ابی” وہ شخص ہے کہ واقعۂ ہجرت سے پہلے تمام مدینہ والوں نے اس کو اپنا بادشاہ مان کر اس کی تاج پوشی کی تیاری کر لی تھی مگر حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہ اسکیم ختم ہو گئی۔ چنانچہ اسی غم و غصہ میں عبدﷲ بن اُبی عمر بھر منافقوں کا سردار بن کر اسلام کی بیخ کنی کرتا رہا اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں مصروف رہا۔
(بخاری باب التسليم فی مجلس فی اخلاط ج۲ ص۹۲۴)

بہر کیف کفار مکہ نے اس دشمن اسلام کے نام جو خط لکھا اس کا مضمون یہ ہے کہ تم نے ہمارے آدمی (محمد صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کر دو یا مدینہ سے نکال دو ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کر دیں گے اور تمہارے تمام لڑنے والے جوانوں کو قتل کرکے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے۔
(ابو داؤد ج۲ ص۶۷ باب فی خبر النفير)

جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کفار مکہ کے اس تہدید آمیز اور خوفناک خط کی خبر معلوم ہوئی تو آپ نے عبدﷲ بن اُبی سے ملاقات فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ ”کیا تم اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کرو گے۔” چونکہ اکثر انصار دامن اسلام میں آ چکے تھے اس لئے عبداﷲ بن اُبی نے اس نکتہ کو سمجھ لیا اور کفار مکہ کے حکم پر عمل نہیں کر سکا۔

(۲)
ٹھیک اسی زمانے میں حضرت سعد بن معاذ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار تھے عمرہ ادا کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ گئے اور پرانے تعلقات کی بنا پر ” اُمیہ بن خلف ” کے مکان پر قیام کیا۔ جب اُمیہ ٹھیک دوپہر کے وقت ان کو ساتھ لے کر طوافِ کعبہ کے لئے گیا تو اتفاق سے ابوجہل سامنے آ گیا اور ڈانٹ کر کہا کہ اے اُمیہ! یہ تمہارے ساتھ کون ہے ؟ اُمیہ نے کہا کہ یہ مدینہ کے رہنے والے ”سعد بن معاذ” ہیں۔ یہ سن کر ابوجہل نے تڑپ کر کہا کہ تم لوگوں نے بے دھرموں (محمد صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور صحابہ) کو اپنے یہاں پناہ دی ہے۔ خدا کی قسم! اگر تم اُمیہ کے ساتھ میں نہ ہوتے تو بچ کر واپس نہیں جا سکتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی انتہائی جرأت اور دلیری کے ساتھ یہ جواب دیا کہ اگر تم لوگوں نے ہم کو کعبہ کی زیارت سے روکا تو ہم تمہاری شام کی تجارت کا راستہ روک دیں گے۔
(بخاری کتاب المغازی ج۲ ص۵۶۳)

(۳)
کفارِ مکہ نے صرف انہی دھمکیوں پر بس نہیں کیا بلکہ وہ مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کرنے لگے اور حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بنانے لگے۔ چنانچہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم راتوں کو جاگ جاگ کر بسر کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کا پہرہ دیا کرتے تھے۔ کفار مکہ نے سارے عرب پر اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے تمام قبائل میں یہ آگ بھڑکا دی تھی کہ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو دنیا سے نیست و نابود کرنا ضروری ہے۔

مذکورہ بالا تینوں وجوہات کی موجودگی میں ہر عاقل کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ ان حالات میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حفاظت خود اختیاری کے لئے کچھ نہ کچھ تدبیر کرنی ضروری ہی تھی تا کہ انصار و مہاجرین اور خود اپنی زندگی کی بقاء اور سلامتی کا سامان ہو جائے۔

چنانچہ کفارِ مکہ کے خطرناک ارادوں کا علم ہو جانے کے بعد حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی اور صحابہ کی حفاظت خود اختیاری کے لئے دو تدبیروں پر عمل درآمد کا فیصلہ فرمایا۔

اوّل:۔
یہ کہ کفار مکہ کی شامی تجارت جس پر ان کی زندگی کا دارومدار ہے اس میں رکاوٹ ڈال دی جائے تا کہ وہ مدینہ پر حملہ کا خیال چھوڑ دیں اور صلح پر مجبور ہو جائیں۔

دوم:۔
یہ کہ مدینہ کے اطراف میں جو قبائل آباد ہیں ان سے امن و امان کا معاہدہ ہو جائے تا کہ کفار مکہ مدینہ پر حملہ کی نیت نہ کر سکیں۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہی دو تدبیروں کے پیش نظر صحابہ کرام کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کو مدینہ کے اطراف میں بھیجنا شروع کر دیااور بعض بعض لشکروں کے ساتھ خود بھی تشریف لے گئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے یہ چھوٹے چھوٹے لشکر کبھی کفار مکہ کی نقل و حرکت کا پتہ لگانے کے لئے جاتے تھے اور کہیں بعض قبائل سے معاہدۂ امن و امان کرنے کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ کہیں اس مقصد سے بھی جاتے تھے کہ کفارِ مکہ کی شامی تجارت کا راستہ بند ہو جائے۔ اسی سلسلہ میں کفارِ مکہ اور ان کے حلیفوں سے مسلمانوں کا ٹکراؤ شروع ہوا اور چھوٹی بڑی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا انہی لڑائیوں کو تاریخ اسلام میں ”غزوات و سرایا” کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔

0 comments:

Post a Comment