Thursday, 13 June 2013

کفار کا سفیر نجاشی کے دربار میں

تمام مہاجرین نہایت امن و سکون کے ساتھ حبشہ میں رہنے لگے۔ مگر کفار مکہ کو کب گوارا ہو سکتا تھا کہ فرزندان توحید کہیں امن و چین کے ساتھ رہ سکیں۔ ان ظالموں نے کچھ تحائف کے ساتھ “عمرو بن العاص” اور “عمارہ بن ولید” کو بادشاہ حبشہ کے دربار میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ ان دونوں نے نجاشی کے دربار میں پہنچ کر تحفوں کا نذرانہ پیش کیا اور بادشاہ کو سجدہ کر کے یہ فریاد کرنے لگے کہ اے بادشاہ ! ہمارے کچھ مجرم مکہ سے بھاگ کر آپ کے ملک میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔ آپ ہمارے ان مجرموں کو ہمارے حوالہ کر دیجیے۔ یہ سن کر نجاشی بادشاہ نے مسلمانوں کو دربار میں طلب کیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے نمائندہ بن کر گفتگو کے لئے آگے بڑھے اور دربار کے آداب کے مطابق بادشاہ کو سجدہ نہیں کیا بلکہ صرف سلام کر کے کھڑے ہو گئے۔ درباریوں نے ٹوکا تو حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے میں بادشاہ کو سجدہ نہیں کر سکتا۔
(زرقانی علی المواهب ج۱ ص ۲۸۸)

اس کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار شاہی میں اس طرح تقریر شروع فرمائی کہ “اے بادشاہ ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے۔ شرک و بت پرستی کرتے تھے۔ لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، ظلم و ستم اور طرح طرح کی بدکاریوں اور بد اعمالیوں میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم میں ایک شخص کو اپنا رسول بنا کر بھیجا جس کے حسب و نسب اور صدق و دیانت کو ہم پہلے سے جانتے تھے، اس رسول نے ہم کو شرک و بت پرستی سے روک دیا اور صرف ایک خدائے واحد کی عبادت کا حکم دیا اور ہر قسم کے ظلم و ستم اور تمام برائیوں اور بدکاریوں سے ہم کو منع کیا۔ ہم اس رسول پر ایمان لائے اور شرک و بت پرستی چھوڑ کر تمام برے کاموں سے تائب ہو گئے۔ بس یہی ہمارا گناہ ہے جس پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی اور ان لوگوں نے ہمیں اتنا ستایا کہ ہم اپنے وطن کو خیر باد کہہ کر آپ کی سلطنت کے زیر سایہ پر امن زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب یہ لوگ ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم پھر اسی پرانی گمراہی میں واپس لوٹ جائیں۔”

حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سے نجاشی بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔ یہ دیکھ کر کفار مکہ کے سفیر عمرو بن العاص نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی پھینک دیا اور کہا کہ اے بادشاہ ! یہ مسلمان لوگ آپ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کچھ دوسرا ہی اعتقاد رکھتے ہیں جو آپ کے عقیدہ کے بالکل ہی خلاف ہے۔

یہ سن کر نجاشی بادشاہ نے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے سورۂ مریم کی تلاوت فرمائی۔ کلام ربانی کی تاثیر سے نجاشی بادشاہ کے قلب پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ اس پر رقت طاری ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہم کو یہی بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو کنواری مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے بغیر باپ کے خدا کی قدرت کا نشان بن کر پیدا ہوئے۔ نجاشی بادشاہ نے بڑے غور سے حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر کو سنا اور یہ کہا کہ بلاشبہ انجیل اور قرآن دونوں ایک ہی آفتاب ہدایت کے دو نور ہیں اور یقینا حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خدا کے وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انجیل میں دی ہے اور اگر میں دستور سلطنت کے مطابق تخت شاہی پر رہنے کا پابند نہ ہوتا تو میں خود مکہ جا کر رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوتیاں سیدھی کرتا اور ان کے قدم دھوتا۔ بادشاہ کی تقریر سن کر اس کے درباری جو کٹر قسم کے عیسائی تھے ناراض و برہم ہوگئے مگر نجاشی بادشاہ نے جوش ایمانی میں سب کو ڈانٹ پھٹکار کر خاموش کر دیا۔ اور کفار مکہ کے تحفوں کو واپس لوٹا کر عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو دربار سے نکلوا دیا اور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ تم لوگ میری سلطنت میں جہاں چاہو امن و سکون کے ساتھ آرام و چین کی زندگی بسر کرو۔ کوئی تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ 

(زرقانی ج۱ ص ۲۸۸)

واضح رہے کہ نجاشی بادشاہ مسلمان ہو گیا تھا۔ چنانچہ اس کے انتقال پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ نجاشی بادشاہ کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا اور وہ حبشہ ہی میں مدفون بھی ہوئے مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غائبانہ ان کی نماز جنازہ پڑھ کر ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی۔

0 comments:

Post a Comment