Thursday 6 June 2013

کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا؟
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے “تاریخ مکہ” میں تحریر فرمایا ہے کہ “خانہ کعبہ” دس مرتبہ تعمیر کیا گیا:

(۱)سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک “بیت المعمور” کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا۔
(۲) پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔
(۳) اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا۔
(۴) اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔
(۵) قوم عمالقہ کی عمارت۔
(۶) اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔
(۷) قریش کے مورث اعلیٰ “قصی بن کلاب” کی تعمیر۔
(۸) قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔
(۹) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا۔ یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا۔ اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اور ایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا۔
(۱۰) عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔ اور ان کے بنائے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا ۔اور پھر زمانۂ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔

بناء حجاج بن يوسف ثقفی

لیکن حضرت علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین ہی مرتبہ ہوئی ہے:

(۱)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تعمیر
(۲) زمانۂ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیروں میں دو ہزار سات سو پینتیس (۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے
(۳) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر جو قریش کی تعمیر کے بیاسی سال بعد ہوئی۔
حضرات ملائکہ اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایتوں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ عمارت میں معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی۔ تعمیر جدید نہیں تھی۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
(حاشيه بخاری ج۱ ص۲۱۵ باب فضل مکه)

0 comments:

Post a Comment