ہجرتِ رسول کا واقعہ
جب کفار حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل پر اتفاق کر کے کانفرنس ختم کر چکے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو حضرت جبریل امین علیہ السلام رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہو گئے کہ اے محبوب! آج رات کو آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جائیں۔
جب کفار حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل پر اتفاق کر کے کانفرنس ختم کر چکے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو حضرت جبریل امین علیہ السلام رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہو گئے کہ اے محبوب! آج رات کو آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جائیں۔
چنانچہ عین دوپہر کے وقت حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ سب گھر والوں کو ہٹا دو کچھ مشورہ کرنا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان یہاں آپ کی اہلیہ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے سوا اور کوئی نہیں ہے (اُس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شادی ہو چکی تھی) حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر! ﷲ تعالیٰ نے مجھے ہجرت کی اجازت فرما دی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر قربان! مجھے بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمائیے۔ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما لی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے چار مہینے سے دو اونٹنیاں ببول کی پتی کھلا کھلا کر تیار کی تھیں کہ ہجرت کے وقت یہ سواری کے کام آئیں گی۔ عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان میں سے ایک اونٹنی آپ قبول فرما لیں۔ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبول ہے مگر میں اس کی قیمت دوں گا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے بادل ناخواستہ فرمان رسالت سے مجبور ہو کر اس کو قبول کیا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا تو اس وقت بہت کم عمر تھیں لیکن ان کی بڑی بہن حضرت بی بی اسماء رضی ﷲ تعالیٰ عنہا نے سامان سفر درست کیا اور توشہ دان میں کھانا رکھ کر اپنی کمر کے پٹکے کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے۔ ایک سے توشہ دان کو باندھا اور دوسرے سے مشک کا منہ باندھا۔ یہ وہ قابل فخر شرف ہے جس کی بنا پر ان کو “ذات النطاقین” (دو پٹکے والی) کے معزز لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک کافر کو جس کا نام “عبدﷲ بن اُرَیْقَطْ” تھا جو راستوں کا ماہر تھا راہ نمائی کے لئے اُجرت پر نوکر رکھا اور ان دونوں اونٹنیوں کو اس کے سپرد کر کے فرمایا کہ تین راتوں کے بعد وہ ان دونوں اونٹنیوں کو لے کر “غارثور” کے پاس آ جائے۔ یہ سارا نظام کر لینے کے بعد حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے مکان پر تشریف لائے۔
(بخاری ج۱ ص۵۵۳ تا ۵۵۴ باب هجرت النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم)
اس کے بعد حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک کافر کو جس کا نام “عبدﷲ بن اُرَیْقَطْ” تھا جو راستوں کا ماہر تھا راہ نمائی کے لئے اُجرت پر نوکر رکھا اور ان دونوں اونٹنیوں کو اس کے سپرد کر کے فرمایا کہ تین راتوں کے بعد وہ ان دونوں اونٹنیوں کو لے کر “غارثور” کے پاس آ جائے۔ یہ سارا نظام کر لینے کے بعد حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے مکان پر تشریف لائے۔
(بخاری ج۱ ص۵۵۳ تا ۵۵۴ باب هجرت النبی صلی الله تعالیٰ عليه وسلم)
0 comments:
Post a Comment