Tuesday 9 July 2013

inp 08 50 سائبر سیکیور پاکستان کے لیے 7 نکاتی ایکشن پلان تجویز
انٹرنیٹ کے حوالے سے سیکورٹی مسائل کو حل کرنے کے لیے سینیٹ کی کی کمیٹی برائے دفاع و دفاعی پیداوار نے پاکستان انفارمیشن سیکورٹی ایسوسی ایشن (PISA) اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز (PIPS)، اسلام آباد کے تعاون سے “سائبر سیکورٹی حکمت عملی کے ذریعے پاکستان کا دفاع” کے موضوع پر ایک پالیسی سیمینار کا اہتمام کیا۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع و دفاعی پیداوار کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ سائبر سیکورٹی خطرہ پاکستان کے قومی دفاع، سیکیورٹی، انٹیلی جینس، سفارت، جوہری اور میزائل پروگرام، معیشت، توانائی، تعلیم، شہری ہوابازی اور سرکاری و نجی شعبوں کے صنعتوں اور کارخانوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ “سائبر سیکیورٹی پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے سنجیدہ اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔”
پاکستان انفارمیشن سیکورٹی ایسوسی ایشن (PISA) کے صدر عمار جعفری نے قومی سائبر سیکورٹی پالیسی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ “مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ایک بہترین ضابطے کی حیثیت سے ایک نقشہ راہ کی ضرورت ہے جسے صرف قومی سائبر سیکورٹی پالیسی کے تحت حاصل کیا جا سکتا ہے۔”
سوالات و جوابات کے سیشن میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک صرف سائبر سیکورٹی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مرکزی وزارت یا خصوصی شعبے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ کی حفاظت کے لیے قوانین متعارف کروائے جانے چاہئیں اور اس سلسلے میں صنعتی ماہرین کو اراکین پارلیمان کے ساتھ شراکت کرنا ہوگی۔ سینیٹر مشاہد حسین نے بتایا کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع سائبر سیکیورٹی کے لیے پہلے ہی جوائنٹ ٹاسک فورس تشکیل دے چکی ہے جو سفارشات اور حالات کے تجزیے پیش کرنے کے لیے PISA کی تکنیکی مدد رکھتا ہے۔
اپنے اختتامی خطاب میں سینیٹر مشاہد حسین نے سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے اراکین کا شکریہ ادا کیا اور اعلان کیا کہ کمیٹی سائبر سیکیور پاکستان کے حوالے سے مندرجہ ذیل سات نکاتی ایکشن پلان تجویز کر رہی ہے:
1۔ پاکستان کی سائبر سیکیورٹی کی حفاظت، سلامتی اور ترویج کے لیے متعلقہ قانون سازی، جس کو دستاویزی شکل دینے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ ہم سائبر سیکورٹی کے لیے بلز پارلیمان میں پیش کریں گے۔
2۔ حکومت پاکستان کی جانب سے سائبر سیکیورٹی خطرے کو نئے اور ابھرتے ہوئے قومی خطرے کی حیثیت سے قبول اور تسلیم کیا جانا چاہیے، بالکل دہشت گردی اور عسکری جارحیت کے جیسے خطرات کی طرح۔
3۔ ایک قومی کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (PKCERT) کا قیام
4۔ وزارت دفاع، وزارت آئی ٹی، وزارت داخلہ، وزارت امور خارجہ، وزارت اطلاعات اور ہماری سیکورٹی آرگنائزیشنز اور پرائیوٹ سیکورٹی سے تعلق رکھنے والے متعلقہ اور معروف ماہرین کے تعاون سے ایک سائبر سیکورٹی ٹاسک فورس کا قیام تاکہ پاکستان نئے ابھرتے ہوئے خطرے سے نمٹ سکے اور ملک کے لیے سائبر سیکورٹی حکمت عملی تیار کر سکے۔
5۔ چیئرمین، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مکیٹی کے تحت ایک انٹر سروسز سائبر کمانڈ قائم کی جانی چاہیے تاکہ پاکستان کی مسلح افواج کے لیے سائبر سیکورٹی اور سائبر ڈیفنس کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔
6۔ سارک ممالک کے درمیان سائبر سیکورٹی کو قابل قبول معیار بنانے کے لیے سارک کے فریم ورک کے اندر پاکستان کو 8 رکن ریاستوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے خصوصاً بھارت کے ساتھ، کہ یہ ممالک ایک دوسرے کے خلاف سائبر وارفیئر میں نہ پڑیں۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ہو سکتا ہے تو ایک دوسرے کے خلاف سائبر جنگ سے تحفظ کا معاہدہ کیوں نہیں؟
7۔ عید کے بعد سینیٹ کی دفاعی کمیٹی پاکستان انفارمیشن سیکورٹی ایسوسی ایشن (PISA) کے تعاون سے سائبر سیکیورٹی کے مسئلے پر عوام اور رائے ساز افراد میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک خصوصی ورکشاپ منعقد کرے گی۔
سیمینار میں سول سوسائٹی، حکومتی عہدیداران، وزارتوں، تعلیمی شخصیات اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

0 comments:

Post a Comment