Sunday 18 August 2013

ہجرت کا پانچواں سال

عمرو بن عبدود مارا گیا

سب سے آگے عمرو بن عبدود تھا یہ اگرچہ نوے برس کا خرانٹ بڈھا تھا مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھا جنگ ِ بدر میں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا، یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگا تین مرتبہ اس نے کہا کہ کون ہے جو میرے مقابلہ کو آتا ہے؟ تینوں مرتبہ حضرت علی شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اُٹھ کر جواب دیا کہ ”میں” حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے روکا کہ اے علی! کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم یہ عمرو بن عبدود ہے۔ حضرت علی شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے عرض کیا کہ جی ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ عمرو بن عبدود ہے لیکن میں اس سے لڑوں گا، یہ سن کر تاجدار نبوت صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دست مبارک سے حیدر کرار کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے مقدس ہاتھ میں دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھا اور یہ دعا فرمائی کہ یا اللہ! عزوجل تو علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی مدد فرما۔ حضرت اسد ﷲ الغالب علی بن ابی طالب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ مجاہدانہ شان سے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دونوں میں اس طرح مکالمہ شروع ہوا:۔

حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ     اے عمرو بن عبدود! تو مسلمان ہو جا!

عمرو بن عبدود     یہ مجھ سے کبھی ہرگز ہر گز نہیں ہو سکتا!

حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ        لڑائی سے واپس چلا جا!

عمرو بن عبدود    یہ مجھے منظور نہیں!

حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ        تو پھر مجھ سے جنگ کر!

عمرو بن عبدود     ہنس کر کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا میں کوئی مجھ کو جنگ کی دعوت دے گا۔

حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ      لیکن میں تجھ سے لڑنا چاہتا ہوں۔
       
عمرو بن عبدود    آخر تمہارا نام کیا ہے؟

حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ     علی بن ابی طالب

عمرو بن عبدود    اے بھتیجے! تم ابھی بہت ہی کم عمر ہومیں تمہارا خون ہانا پسند نہیں کرتا۔

حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ       لیکن میں تمہاراخون بہانے کوبے حد پسند کرتا ہوں۔

عمرو بن عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیا حضرت شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پیدل تھے اور یہ سوار تھا اس پر جو غیرت سوار ہوئی تو گھوڑے سے اتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اور حضرت شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پر تلوار کا بھر پور وار کیا حضرت شیر خدا نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا، یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی گو بہت گہرا زخم نہیں لگا مگر پھر بھی زندگی بھر یہ طغریٰ آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیا حضرت علی شیر خدا رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے تڑپ کر للکارا کہ اے عمرو! سنبھل جا اب میری باری ہے یہ کہہ کر اسد ﷲ الغالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے ذوالفقار کا ایسا جچاتلا ہاتھ مارا کہ تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی اور وہ تلملا کر زمین پر گرا اور دم زدن میں مر کر فی النار ہو گیا اور میدان کارزار زبان حال سے پکار اٹھا کہ

شاہِ مرداں، شیرِ یزداں قوتِ پروردگار

لَا فَتٰي اِلَّا عَلِي لَا سَيْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار


حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیا اور منہ پھیر کر چل دیئے حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے علی! کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی؟ سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اے عمر! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بے قرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی شرمگاہ کھل گئی اس لئے حیاء کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا۔
(زُرقانی ج۲ ص۱۱۴ و ۱۱۵)

0 comments:

Post a Comment