Wednesday 21 August 2013

ہجرت کا چھٹا سال

نامہ مبارک اور قیصر

حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقدس خط لے کر ”بصریٰ” تشریف لے گئے اور وہاں قیصر روم کے گورنر شام حارث غسانی کو دیا۔ اس نے اس نامہ مبارک کو ”بیت المقدس” بھیج دیا۔ کیونکہ قیصر روم ”ہرقل” ان دنوں بیت المقدس کے دورہ پر آیا ہوا تھا۔ قیصر کو جب یہ مبارک خط ملا تو اس نے حکم دیا کہ قریش کا کوئی آدمی ملے تو اس کو ہمارے دربار میں حاضر کرو۔ قیصر کے حکام نے تلاش کیا تو اتفاق سے ابوسفیان اور عرب کے کچھ دوسرے تاجر مل گئے۔ یہ سب لوگ قیصر کے دربار میں لائے گئے۔ قیصر نے بڑے طمطراق کے ساتھ دربار منعقد کیا اور تاج شاہی پہن کر تخت پر بیٹھا۔ اور تخت کے گرد اراکین سلطنت، بطارقہ اور احبار و رہبان وغیرہ صف باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ اسی حالت میں عرب کے تاجروں کا گروہ دربار میں حاضر کیا گیا اور شاہی محل کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے۔ پھر قیصر نے ترجمان کو بلایا اور اس کے ذریعہ گفتگو شروع کی۔ سب سے پہلے قیصر نے یہ سوال کیا کہ عرب میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تم میں سے ان کا سب سے قریبی رشتہ دار کون ہے ؟ ابو سفیان نے کہا کہ ”میں” قیصر نے ان کو سب سے آگے کیا اور دوسرے عربوں کو ان کے پیچھے کھڑا کیا اور کہا کہ دیکھو! اگر ابو سفیان کوئی غلط بات کہے تو تم لوگ اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ پھر قیصر اور ابو سفیان میں جو مکالمہ ہوا وہ یہ ہے:

قیصر     مدعی نبوت کا خاندان کیسا ہے؟

ابو سفیان    ان کا خاندان شریف ہے۔   

قیصر کیا اس خاندان میں ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟
       
ابو سفیان      نہیں۔

قیصر کیا ان کے باپ داداؤں میں کوئی بادشاہ تھا؟    

ابو سفیان     نہیں۔

قیصر        جن لوگوں نے ان کا دین قبول کیا ہے وہ کمزور لوگ ہیں یا صاحب اثر؟
   
ابو سفیان      کمزور لوگ ہیں۔

قیصر ان کے متبعین بڑھ رہے ہیں یا گھٹتے جارہے ہیں؟

ابو سفیان     بڑھتے جا رہے ہیں۔

قیصر      کیا کوئی ان کے دین میں داخل ہو کر پھر اس کو ناپسند کر کے پلٹ بھی جاتا ہے؟
       
ابو سفیان   نہیں۔

قیصر    کیا نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے تم لوگ انہیں جھوٹا سمجھتے تھے؟

ابو سفیان   نہیں۔

قیصر     کیا وہ کبھی عہد شکنی اور وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں؟

ابو سفیان     ابھی تک تو نہیں کی ہے لیکن اب ہمارے اور ان کے درمیان (حدیبیہ) میں جو ایک نیا معاہدہ ہوا ہے معلوم نہیں اس میں وہ کیا کریں گے؟

قیصر    کیا کبھی تم لوگوں نے ان سے جنگ بھی کی؟

ابو سفیان      ہاں۔

قیصر    نتیجہ جنگ کیا رہا؟

ابو سفیان    کبھی ہم جیتے، کبھی وہ۔

قیصر       وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتے ہیں؟

ابو سفیان     وہ کہتے ہیں کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو کسی اور کو خدا کا شریک نہ ٹھہراؤ، بتوں کو چھوڑو، نماز پڑھو، سچ بولو، پاک دامنی اختیار کرو، رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔        

اس سوال و جواب کے بعد قیصر نے کہا کہ تم نے ان کو خاندانی شریف بتایا اور تمام پیغمبروں کا یہی حال ہے کہ ہمیشہ پیغمبر اچھے خاندانوں ہی میں پیدا ہوتے ہیں۔ تم نے کہا کہ ان کے خاندان میں کبھی کسی اور نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو میں کہہ دیتا کہ یہ شخص اوروں کی نقل اتار رہا ہے۔ تم نے اقرار کیا ہے کہ ان کے خاندان میں کبھی کوئی بادشاہ نہیں ہوا ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو میں سمجھ لیتا کہ یہ شخص اپنے آباء و اجداد کی بادشاہی کا طلبگار ہے۔ تم مانتے ہو کہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے وہ کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولے تو جو شخص انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا بھلا وہ خدا پر کیوں کر جھوٹ باندھ سکتا ہے؟ تم کہتے ہو کہ کمزور لوگوں نے ان کے دین کو قبول کیا ہے۔ تو سن لو ہمیشہ ابتداء میں پیغمبروں کے متبعین مفلس اور کمزور ہی لوگ ہوتے رہے ہیں۔ تم نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑھتے ہی جارہے ہیں تو ایمان کا معاملہ ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد ہمیشہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ تم کو یہ تسلیم ہے کہ کوئی ان کے دین سے پھر کر مرتد نہیں ہو رہا ہے۔ تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایمان کی شان ایسی ہی ہوا کرتی ہے کہ جب اس کی لذت کسی کے دل میں گھر کر لیتی ہے تو پھر وہ کبھی نکل نہیں سکتی۔ تمہیں اس کا اعتراف ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی غداری اور بدعہدی نہیں کی ہے۔ تو رسولوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ کبھی کوئی دغا فریب کا کام کرتے ہی نہیں۔ تم نے ہمیں بتایا کہ وہ خدائے واحد کی عبادت، شرک سے پرہیز، بت پرستی سے ممانعت، پاک دامنی، صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ تو سن لو کہ تم نے جو کچھ کہا ہے اگر یہ صحیح ہے تو وہ عنقریب اس جگہ کے مالک ہو جائیں گے جہاں اس وقت میرے قدم ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ایک رسول کا ظہور ہونے والا ہے مگر میرا یہ گمان نہیں تھا کہ وہ رسول تم عربوں میں سے ہوگا۔ اگر میں یہ جان لیتا کہ میں ان کی بارگاہ میں پہنچ سکوں گا تو میں تکلیف اٹھا کر وہاں تک پہنچتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ان کا پاؤں دھوتا۔ قیصر نے اپنی اس تقریر کے بعد حکم دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا خط پڑھ کر سنایا جائے۔ نامہ مبارک کی عبارت یہ تھی:

بسم الله الرحمٰن الرحيم من محمد عبد الله و رسوله الي هرقل عظيم الروم سلام علٰي من اتبع الهدی اما بعد فاني ادعوك بدعاية الاسلام اسلم تسلم يوتك الله اجرك مرتين فان توليت فان عليک اثم الاريسين یااهل الكتاب تعالوا الٰي کلمة سواء بيننا و بينکم ان لا نعبد الا الله و لا نشرك به شيئا و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون

شروع کرتا ہوں میں خدا کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ کے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی طرف سے یہ خط ” ہرقل ” کے نام ہے جو روم کا بادشاہ ہے۔ اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کا پیرو ہے۔ اس کے بعد میں تجھ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں تو مسلمان ہو جا تو سلامت رہے گا۔ خدا تجھ کو دو گنا ثواب دے گا۔ اور اگر تو نے روگردانی کی تو تیری تمام رعایا کا گناہ تجھ پر ہوگا۔ اے اہل کتاب !ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور ہم میں سے بعض لوگ دوسرے بعض لوگوں کو خدا نہ بنائیں اور اگر تم نہیں مانتے تو گواہ ہوجاؤ کہ ہم مسلمان ہیں!

قیصر نے ابو سفیان سے جو گفتگو کی اس سے اس کے درباری پہلے ہی انتہائی برہم اور بیزار ہو چکے تھے۔ اب یہ خط سنا۔ پھر جب قیصر نے ان لوگوں سے یہ کہا کہ اے جماعت روم! اگر تم اپنی فلاح اور اپنی بادشاہی کی بقا چاہتے ہو تو اس نبی کی بیعت کرلو۔ تو درباریوں میں اس قدر ناراضگی اور بیزاری پھیل گئی کہ وہ لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بدک بدک کر دربار سے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے۔ مگر چونکہ تمام دروازے بند تھے اس لئے وہ لوگ باہر نہ نکل سکے۔ جب قیصر نے اپنے درباریوں کی نفرت کا یہ منظر دیکھا تو وہ ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا اور اس نے کہا کہ ان درباریوں کو بلاؤ۔ جب سب آ گئے تو قیصر نے کہا کہ ابھی ابھی میں نے تمہارے سامنے جو کچھ کہا۔ اس سے میرا مقصد تمہارے دین کی پختگی کا امتحان لینا تھا تو میں نے دیکھ لیا کہ تم لوگ اپنے دین میں بہت پکے ہو۔ یہ سن کر تمام درباری قیصر کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اور ابو سفیان وغیرہ دربار سے نکال دیئے گئے اور دربار برخواست ہو گیا۔ چلتے وقت ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب یقینا ابو کبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کا معاملہ بہت بڑھ گیا۔ دیکھ لو! رومیوں کا بادشاہ ان سے ڈر رہا ہے۔
(بخاری باب کیف کان بدء الوحی ج۱ ص۴ تا ۵ و مسلم ج۲ ص ۹۷ تا ۹۹، مدارج ج۲ ص۲۲۱ وغيره)

قیصر چونکہ توراۃ و انجیل کا ماہر اور علم نجوم سے واقف تھا اس لئے وہ نبی آخرالزماں کے ظہور سے باخبر تھا اور ابو سفیان کی زبان سے حالات سن کر اس کے دل میں ہدایت کا چراغ روشن ہو گیا تھا۔ مگر سلطنت کی حرص و ہوس کی آندھیوں نے اس چراغ ہدایت کو بجھا دیا اور وہ اسلام کی دولت سے محروم رہ گیا۔

0 comments:

Post a Comment