ہجرت کا تیسرا سال
ابو دجانہ کی خوش نصیبی
حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک تلوار تھی جس پر یہ شعر کندہ تھا کہ
فِي الْجُبْنِ عَارٌ وَفِي الْاِقْبَال مَکْرُمَةٌ
وَالْمَرْءُ بِالْجُبْنِ لاَ يَنْجُوْ مِنَ الْقَدْرٖ
بزدلی میں شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے اور آدمی بزدلی کر کے تقدیر سے نہیں بچ سکتا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کون ہے جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرے” یہ سن کر بہت سے لوگ اس سعادت کے لئے لپکے مگر یہ فخر و شرف حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے نصیب میں تھا کہ تاجدار دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی یہ تلوار اپنے ہاتھ سے حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دی۔ وہ یہ اعزاز پا کر جوش مسرت میں مست و بے خود ہو گئے اور عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اس تلوار کا حق کیا ہے؟
حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک تلوار تھی جس پر یہ شعر کندہ تھا کہ
فِي الْجُبْنِ عَارٌ وَفِي الْاِقْبَال مَکْرُمَةٌ
وَالْمَرْءُ بِالْجُبْنِ لاَ يَنْجُوْ مِنَ الْقَدْرٖ
بزدلی میں شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے اور آدمی بزدلی کر کے تقدیر سے نہیں بچ سکتا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کون ہے جو اس تلوار کو لے کر اس کا حق ادا کرے” یہ سن کر بہت سے لوگ اس سعادت کے لئے لپکے مگر یہ فخر و شرف حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے نصیب میں تھا کہ تاجدار دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی یہ تلوار اپنے ہاتھ سے حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دی۔ وہ یہ اعزاز پا کر جوش مسرت میں مست و بے خود ہو گئے اور عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اس تلوار کا حق کیا ہے؟
ارشاد فرمایا کہ ”تو اس سے کافروں کو قتل کرے یہاں تک کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے۔“
حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ پھر وہ اپنے سر پر ایک سرخ رنگ کا رومال باندھ کر اکڑتے اور اتراتے ہوئے میدان جنگ میں نکل پڑے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اور تلوار چلاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک دم ان کے سامنے ابو سفیان کی بیوی ”ہند” آ گئی۔ حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ارادہ کیا کہ اس پر تلوار چلا دیں مگر پھر اس خیال سے تلوار ہٹالی کہ رسول ﷲ عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی عورت کا سر کاٹے۔
(زُرقانی ج۲ ص۲۹ و مدارج جلد۲ ص۱۱۶)
حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی طرح حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہما بھی دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور کفار کا قتل عام شروع کر دیا۔
حضرت حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ انتہائی جوش جہاد میں دو دستی تلوار مارتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ اسی حالت میں ”سباع غبشانی” سامنے آ گیا آپ نے تڑپ کر فرمایا کہ اے عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت کے بچے! ٹھہر، کہاں جاتا ہے؟ تو ﷲ و رسول سے جنگ کرنے چلا آیا ہے۔ یہ کہہ کر اس پر تلوار چلا دی، اور وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ پھر وہ اپنے سر پر ایک سرخ رنگ کا رومال باندھ کر اکڑتے اور اتراتے ہوئے میدان جنگ میں نکل پڑے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اور تلوار چلاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک دم ان کے سامنے ابو سفیان کی بیوی ”ہند” آ گئی۔ حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ارادہ کیا کہ اس پر تلوار چلا دیں مگر پھر اس خیال سے تلوار ہٹالی کہ رسول ﷲ عزوجل و صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار کے لئے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی عورت کا سر کاٹے۔
(زُرقانی ج۲ ص۲۹ و مدارج جلد۲ ص۱۱۶)
حضرت ابو دجانہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی طرح حضرت حمزہ اور حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہما بھی دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور کفار کا قتل عام شروع کر دیا۔
حضرت حمزہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ انتہائی جوش جہاد میں دو دستی تلوار مارتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ اسی حالت میں ”سباع غبشانی” سامنے آ گیا آپ نے تڑپ کر فرمایا کہ اے عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت کے بچے! ٹھہر، کہاں جاتا ہے؟ تو ﷲ و رسول سے جنگ کرنے چلا آیا ہے۔ یہ کہہ کر اس پر تلوار چلا دی، اور وہ دو ٹکڑے ہو کر زمین پر ڈھیر ہو گیا۔
0 comments:
Post a Comment