ہجرت کا پانچواں سال
مسلمانوں کی تیاری
جب قبائل عرب کے تمام کافروں کے اس گٹھ جوڑ اور خوفناک حملہ کی خبریں مدینہ پہنچیں تو حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ جنگ ِ اُحد کی طرح شہر سے باہر نکل کر اتنی بڑی فوج کے حملہ کو میدانی لڑائی میں روکنا مصلحت کے خلاف ہے لہٰذا مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر اس حملہ کا دفاع کیا جائے اور شہر کے گرد جس طرف سے کفار کی چڑھائی کا خطرہ ہے ایک خندق کھود لی جائے تاکہ کفار کی پوری فوج بیک وقت حملہ آور نہ ہو سکے، مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات کی تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا مدینہ کا صرف ایک رُخ کھلا ہوا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اسی طرف پانچ گز گہری خندق کھودی جائے، چنانچہ ۸ ذوقعدہ ۵ ھ کو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے، حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے خندق کی حد بندی فرمائی اور دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم فرما دی اور تقریباً بیس دن میں یہ خندق تیار ہوگئی۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۱۶۸ تا ۱۷۰)
حضرت انس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خندق کے پاس تشریف لائے اور جب یہ دیکھا کہ انصار و مہاجرین کڑ کڑاتے ہوئے جاڑے کے موسم میں صبح کے وقت کئی کئی فاقوں کے باوجود جوش و خروش کے ساتھ خندق کھودنے میں مشغول ہیں تو انتہائی متأثر ہو کر آپ نے یہ رجز پڑھنا شروع کر دیا کہ ؎
َاللّٰهُمَّ اِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْاٰخِرَة
َفَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة
اے ﷲ! عزوجل بلاشبہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے لہٰذا تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔
َنَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدًا
َعَلَي الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا اَبَدًا
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جہاد پر حضرت محمد صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیعت کر لی ہے جب تک ہم زندہ رہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔
(بخاری غزوه خندق ج۲ ص۵۸۸)
حضرت براء بن عازب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود بھی خندق کھودتے اور مٹی اُٹھا اُٹھا کر پھنکتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے شکم مبارک پر غبار کی تہ جم گئی تھی اور مٹی اٹھاتے ہوئے صحابہ کو جوش دلانے کے لئے رجز کے یہ اشعار پڑھتے تھے کہ
َوَ اللّٰهِ لَوْ لَا اللّٰهُ مَا اهْتَدَيْنَا
َوَ لَا تَصَدَّقْنَا وَ لَا صَلَّيْنَا
خدا کی قسم! اگر ﷲ کا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔
فَاَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا
وَ ثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقَيْنَا
لہٰذا اے ﷲ! عزوجل تو ہم پر قلبی اطمینان اتار دے اور جنگ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ ۔
اِنَّ الْاُلٰي قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا
اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَةً اَبَيْنَا
یقینا ان (کافروں) نے ہم پر ظلم کیا ہے اور جب بھی ان لوگوں نے فتنہ کا ارادہ کیا تو ہم لوگوں نے انکار کر دیا۔ لفظ ”اَبَيْنَا” حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بار بار بہ تکرار بلند آواز سے دہراتے تھے۔
جب قبائل عرب کے تمام کافروں کے اس گٹھ جوڑ اور خوفناک حملہ کی خبریں مدینہ پہنچیں تو حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ جنگ ِ اُحد کی طرح شہر سے باہر نکل کر اتنی بڑی فوج کے حملہ کو میدانی لڑائی میں روکنا مصلحت کے خلاف ہے لہٰذا مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر اس حملہ کا دفاع کیا جائے اور شہر کے گرد جس طرف سے کفار کی چڑھائی کا خطرہ ہے ایک خندق کھود لی جائے تاکہ کفار کی پوری فوج بیک وقت حملہ آور نہ ہو سکے، مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات کی تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا مدینہ کا صرف ایک رُخ کھلا ہوا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اسی طرف پانچ گز گہری خندق کھودی جائے، چنانچہ ۸ ذوقعدہ ۵ ھ کو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے، حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے خندق کی حد بندی فرمائی اور دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم فرما دی اور تقریباً بیس دن میں یہ خندق تیار ہوگئی۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۱۶۸ تا ۱۷۰)
حضرت انس رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خندق کے پاس تشریف لائے اور جب یہ دیکھا کہ انصار و مہاجرین کڑ کڑاتے ہوئے جاڑے کے موسم میں صبح کے وقت کئی کئی فاقوں کے باوجود جوش و خروش کے ساتھ خندق کھودنے میں مشغول ہیں تو انتہائی متأثر ہو کر آپ نے یہ رجز پڑھنا شروع کر دیا کہ ؎
َاللّٰهُمَّ اِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْاٰخِرَة
َفَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَة
اے ﷲ! عزوجل بلاشبہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے لہٰذا تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔
َنَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدًا
َعَلَي الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا اَبَدًا
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جہاد پر حضرت محمد صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیعت کر لی ہے جب تک ہم زندہ رہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔
(بخاری غزوه خندق ج۲ ص۵۸۸)
حضرت براء بن عازب رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خود بھی خندق کھودتے اور مٹی اُٹھا اُٹھا کر پھنکتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے شکم مبارک پر غبار کی تہ جم گئی تھی اور مٹی اٹھاتے ہوئے صحابہ کو جوش دلانے کے لئے رجز کے یہ اشعار پڑھتے تھے کہ
َوَ اللّٰهِ لَوْ لَا اللّٰهُ مَا اهْتَدَيْنَا
َوَ لَا تَصَدَّقْنَا وَ لَا صَلَّيْنَا
خدا کی قسم! اگر ﷲ کا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔
فَاَنْزِلَنْ سَکِيْنَةً عَلَيْنَا
وَ ثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقَيْنَا
لہٰذا اے ﷲ! عزوجل تو ہم پر قلبی اطمینان اتار دے اور جنگ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ ۔
اِنَّ الْاُلٰي قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا
اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَةً اَبَيْنَا
یقینا ان (کافروں) نے ہم پر ظلم کیا ہے اور جب بھی ان لوگوں نے فتنہ کا ارادہ کیا تو ہم لوگوں نے انکار کر دیا۔ لفظ ”اَبَيْنَا” حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بار بار بہ تکرار بلند آواز سے دہراتے تھے۔
0 comments:
Post a Comment