Tuesday 20 August 2013

ہجرت کا چھٹا سال

حضرت ابو جندل کا معاملہ

یہ عجیب اتفاق ہے کہ معاہدہ لکھا جا چکا تھا لیکن ابھی اس پر فریقین کے دستخط نہیں ہوئے تھے کہ اچانک اسی سہیل بن عمرو کے صاحبزادے حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے گرتے پڑتے حدیبیہ میں مسلمانوں کے درمیان آن پہنچے۔ سہیل بن عمرو اپنے بیٹے کو دیکھ کر کہنے لگا کہ اے محمد! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) اس معاہدہ کی دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے میری پہلی شرط یہ ہے کہ آپ ابو جندل کو میری طرف واپس لوٹایئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی تو اس معاہدہ پر فریقین کے دستخط ہی نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے اور تمہارے دستخط ہو جانے کے بعد یہ معاہدہ نافذ ہوگا۔ یہ سن کر سہیل بن عمرو کہنے لگا کہ پھر جایئے۔ میں آپ سے کوئی صلح نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اے سہیل! تم اپنی طرف سے اجازت دے دو کہ میں ابو جندل کو اپنے پاس رکھ لوں۔ اس نے کہا کہ میں ہرگز کبھی اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ میں پھر مکہ لوٹا دیا جاؤں گا تو انہوں نے مسلمانوں سے فریاد کی اور کہا کہ اے جماعت مسلمین! دیکھو میں مشرکین کی طرف لوٹایا جارہا ہوں حالانکہ میں مسلمان ہوں اور تم مسلمانوں کے پاس آگیا ہوں کفار کی مار سے ان کے بدن پر چوٹوں کے جو نشانات تھے انہوں نے ان نشانات کو دکھا دکھا کر مسلمانوں کو جوش دلایا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سن کر ایمانی جذبہ سوار ہو گیا اور وہ دندناتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ کیا آپ سچ مچ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ کیوں نہیں؟ پھر انہوں نے کہا کہ تو پھر ہمارے دین میں ہم کو یہ ذلت کیوں دی جارہی ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں اس کی نافرمانی نہیں کرتا ہوں۔ وہ میرا مددگار ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیا آپ ہم سے یہ وعدہ نہ فرماتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں آکر طواف کریں گے؟ ارشاد فرمایا کہ کیا میں نے تم کو یہ خبر دی تھی کہ ہم اسی سال بیت اللہ میں داخل ہوں گے؟ انہوں نے کہا کہ ”نہیں” آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں پھر کہتا ہوں کہ تم یقینا کعبہ میں پہنچو گے اور اس کا طواف کرو گے۔

دربار رسالت سے اٹھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور وہی گفتگو کی جو بارگاہ رسالت میں عرض کر چکے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عمر! وہ خدا کے رسول ہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے کرتے ہیں وہ کبھی خدا کی نافرمانی نہیں کرتے اور خدا ان کا مددگار ہے اور خدا کی قسم! یقینا وہ حق پر ہیں لہٰذا تم ان کی رکاب تھامے رہو۔
(ابن هشام ج ۳ص۳۱۷ )

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام عمر اِن باتوں کا صدمہ اور سخت رنج و افسوس رہا جو انہوں نے جذبہ بے اختیاری میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہہ دی تھیں۔ زندگی بھر وہ اس سے توبہ و استغفار کرتے رہے اور اس کے کفارہ کے لئے انہوں نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، خیرات کی، غلام آزاد کئے۔ بخاری شریف میں اگرچہ ان اعمال کا مفصل تذکرہ نہیں ہے، اجمالاً ہی ذکر ہے لیکن دوسری کتابوں میں نہایت تفصیل کے ساتھ یہ تمام باتیں بیان کی گئی ہیں۔

بہر حال یہ بڑے سخت امتحان اور آزمائش کا وقت تھا۔ ایک طرف حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ گڑ گڑا کر مسلمانوں سے فریاد کر رہے ہیں اور ہر مسلمان اس قدر جوش میں بھرا ہوا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب مانع نہ ہوتا تو مسلمانوں کی تلواریں نیام سے باہر نکل پڑتیں۔ دوسری طرف معاہدہ پر دستخط ہوچکے ہیں اور اپنے عہد کو پورا کرنے کی ذمہ داری سر پر آن پڑی ہے۔ حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے موقع کی نزاکت کا خیال فرماتے ہوئے حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم صبر کرو۔ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں کے لئے ضرور ہی کوئی راستہ نکالے گا۔ ہم صلح کا معاہدہ کرچکے اب ہم ان لوگوں سے بدعہدی نہیں کر سکتے۔ غرض حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی طرح پابہ زنجیر پھر مکہ واپس جانا پڑا۔

جب صلح نامہ مکمل ہو گیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اٹھو اور قربانی کرو اور سرمنڈا کر احرام کھول دو۔ مسلمانوں کی ناگواری اور ان کے غیظ و غضب کا یہ عالم تھا کہ فرمان نبوی سن کر ایک شخص بھی نہیں اٹھا۔ مگر ادب کے خیال سے کوئی ایک لفظ بول بھی نہ سکا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت بی بی اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا تذکرہ فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ میری رائے یہ ہے کہ آپ کسی سے کچھ بھی نہ کہیں اور خود آپ اپنی قربانی کرلیں اور بال ترشوا لیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قربانی کرکے احرام اتارتے دیکھ لیا تو پھر وہ لوگ مایوس ہوگئے کہ اب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنا فیصلہ نہیں بدل سکتے تو سب لوگ قربانی کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال تراشنے لگے مگر اس قدر رنج و غم میں بھرے ہوئے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے کو قتل کر ڈالے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوگئے۔
(بخاری ج۲ ص۶۱۰ باب عمرة القضاء مسلم جلد ۲ ص۱۰۴ صلح حديبيه بخاری ج۱ ص۳۸۰ باب شروط في الجهاد الخ )

اس صلح کو تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک مغلوبانہ صلح اور ذلت آمیز معاہدہ سمجھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس سے جو رنج و صدمہ گزرا وہ آپ پڑھ چکے۔ مگر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ

اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا

اے حبیب! ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی۔

خداوند قدوس نے اس صلح کو ”فتح مبین” بتایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کیا یہ ”فتح” ہے؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”ہاں! یہ فتح ہے۔“

گو اس وقت اس صلح نامہ کے بارے میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خیالات اچھے نہیں تھے۔ مگر اس کے بعد کے واقعات نے بتا دیا کہ در حقیقت یہی صلح تمام فتوحات کی کنجی ثابت ہوئی اور سب نے مان لیا کہ واقعی صلح حدیبیہ ایک ایسی فتح مبین تھی جو مکہ میں اشاعت اسلام بلکہ فتح مکہ کا ذریعہ بن گئی۔ اب تک مسلمان اور کفار ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے ایک دوسرے سے ملنے جلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا مگر اس صلح کی وجہ سے ایک دوسرے کے یہاں آمدورفت آزادی کے ساتھ گفت و شنید اور تبادلۂ خیالات کا راستہ کھل گیا۔ کفار مدینہ آتے اور مہینوں ٹھہر کر مسلمانوں کے کردار و اعمال کا گہرا مطالعہ کرتے۔ اسلامی مسائل اور اسلام کی خوبیوں کا تذکرہ سنتے جو مسلمان مکہ جاتے وہ اپنے چال چلن، عفت شعاری اور عبادت گزاری سے کفار کے دلوں پر اسلام کی خوبیوں کا ایسا نقش بٹھا دیتے کہ خود بخود کفار اسلام کی طرف مائل ہوتے جاتے تھے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک اس قدر کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے کہ اتنے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت خالد بن الولید (فاتح شام) اور حضرت عمرو بن العاص (فاتح مصر) بھی اسی زمانے میں خود بخود مکہ سے مدینہ جاکر مسلمان ہوئے۔
(رضی اللہ تعالیٰ عنہم)
(سيرت ابن هشام ج۳ ص۲۷۷ و ص۲۷۸ )

0 comments:

Post a Comment