بغداد کا معروف چور
شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ
پہلوانی چھوڑ کر اللہ کے حضور میں ہر وقت سجدہ ریز رہنے لگے۔ اللہ نے
انہیں ہر ہر نعمت سے نوازا مگر اللہ مہربان کی قربت سے کوئی بھی نعمت ہیچ
تھی ذاتی طور پر کپڑے کی تجارت کرتے تھے ایک بہت بڑا محل نما گھر ان کے
استعمال میں تھا۔ ابن سباط بہت بڑا چور تھا جس سے حکومت وقت بھی تنگ آچکی
تھی‘ عدالت نے اسے سزائے موت دینے کا فیصلہ کرلیا تھا کیونکہ اس سے پہلے
ابن سباط کا ایک ہاتھ چوری کے جرم میں
کاٹا گیا تھا اس بدمزاج کردار کو ختم کردینے کا عدالت نے فیصلہ کرلیا تھا
جس رات کی صبح کو اسکی گردن اڑانی تھی ہاتھ کٹا شیطان جیل توڑ کر بھاگا۔ جب
جیل سے بھاگا تو اس کے شیطانی کردار نے اسے مجبور کیا کہ سارا بغداد سورہا
ہے اور تم خالی ہاتھ جارہے ہو کچھ تو ہونا چاہیے‘ اس نے ادھر اُدھر نظر
دوڑائی تو اسے ایک محل نما حویلی دکھائی دی‘ رات کا تیسرا پہر ہے یہ شخص
اندر محل میں داخل ہوا۔ ایک کمرے میں جب داخل ہوا تو اتفاقاً یہ کمرہ کپڑے
کا گودام تھا‘ اس نے اندھیرے میں تھان اکٹھے کرنا شروع کردئیے کہ ناگاہ
روشنی اسی طرف آرہی تھی وہ بدبخت تیار ہوکر گھات میں بیٹھ گیا مگر جب اس کی
نظر اس آنیوالے سفید کمزور سے بوڑھے پر پڑی تو اس کو کچھ اطمینان ہوا کہ
یہ بوڑھا تو میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا میں تو اسے ایک ہی جست میں دبوچ
لونگا۔ پہلے چور بولا کہ تم کون ہو یہاں روشنی نہ کرو‘ گھر والے جاگ
جائینگے اور تم ہو کون؟ اس کا جواب دیا گیا کہ تمہاری طرح کا ہوں‘ چور
سمجھا کہ یہ بوڑھا میری طرح کا چور ہے مگر بوڑھا ہوچکا ہے چور ہنسا اور کہا
”عادت بد نہ رود تالیب گور“ جواب میں بزرگ نے کچھ بھی نہ کہا اور دو
گٹھڑیاں باندھنے لگا‘ ابن سباط نے جب دیکھا کہ تو اس نے تمسخرانہ انداز میں
کہا کہ بوڑھا ہوگیا مگر ہیرا پھیری نہیں گئی‘ ہیرا پھیری اسے اس کامقصد
بددیانتی ہے یعنی دو گٹھڑیاں ایک چھوٹی اور ایک بڑی.... بزرگ تو اس (ابن
سباط ہاتھ کٹا شیطان) کے تیور کو سمجھ گیا بولا بھائی یہ بڑی تمہارے لیے
باندھ رہا ہوں اور یہ چھوٹی گٹھڑی اپنے لیے کیونکہ میں کمزور ہوں بوڑھا ہوں
بڑی گٹھڑی نہیں اٹھا سکتا۔
تب جا کر ابن سباط مطمئن ہوا۔ معاً اسے خیال آیا کہ وقت گزرتا جارہا ہے تو اس نے بوڑھے چور کو ایک گالی دیکر جلدی کرنے چلنے اور بھاگنے کا کہا بہرحال جب حویلی سے باہر نکلے تو باہر تو کوئی نہیں تھا اور وہ دونوں بھاگنے لگے ابن سباط اس اپنے بزرگ ساتھی کو گالیاں بکتا اور جلدی چلنے کا کہتا رہا کیونکہ بوڑھا پیچھے پیچھے رہ جاتا تھا بالآخر بوڑھے چور نے بھاگنے میں ناکامی پر ہارمان لی اور اپنی گٹھڑی بھی ابن سباط کے حوالے کی اور ہانپنے لگا۔
ابن سباط گالیاں بکتا ہوا بوڑھے کو چھوڑ گیا اور دونوں گٹھڑیاں اٹھائیں اور کہیں گم ہوگیا۔ ایک دو دن کے بعد جب ذرا امن ہوا تو اسی طرح وہ بھیس بدل کر شہر کی جاسوسی کرنے اور اپنے بھاگنے کے متعلق معلومات کیلئے آیا تو ناگہاں اس کی نظر اس حویلی پر پڑی لوگ اندر جارہے تھے اسے فوراً خیال آیا کہ آج کتنے دنوں بعد تک لوگ افسوس (مال چوری ہونے کا) کرنے آرہے ہیں تو اس نے دل میں سوچا کہ چلو اس حویلی کے مالک کو تو دیکھ لوں کہ وہ کس طرح کی شکل و صورت رکھتا ہے جب وہ اندر داخل ہوا تو اس حویلی کا صحن جو کہ بڑا ہی وسیع و عریض تھا لوگوں سے بھرا پڑا تھا لوگ شاید مالک مکان کے انتظار میں تھے اور لوگ احترام میں کھڑے ہونا شروع ہوگئے اور ابن سباط تو حیران رہ گیا ارے یہ تو ہی بوڑھا ہے جو اس رات موم بتی اٹھائے آگیا تھا اور خود کو چور کہہ رہا تھا اور میں اس بزرگ کی توہین کررہا تھا مگر انہوں نے جواباً ایسی کوئی بات نہیں کی ان بزرگ ہستی کے اس رویہ نے اس کی دنیا ہی بدل دی ۔اصل دنیا تو کوئی اور ہے جس کا اسے پہلے علم نہیں تھا اور اب علم ہوگیا۔
ابن سباط جو کہ بغداد کا مشہور معروف چور تھا عدالت نے باز نہ آنے پر اس کا ایک ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا مگر یہ ہاتھ کٹا شیطان تھا باز نہ آیا مگر ایک حادثاتی ملاقات (ایک بزرگ شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ) نے اس کی دنیا ہی بدل دی اور اس نئی دنیا میں آکر اس نے بالکل نئی زندگی اختیار کی۔
ابن سباط جتنی دیر زندہ رہا اس دنیا کی بودوباش اختیار کرکے ابن سباط رحمة اللہ علیہ ہوگئے۔
تب جا کر ابن سباط مطمئن ہوا۔ معاً اسے خیال آیا کہ وقت گزرتا جارہا ہے تو اس نے بوڑھے چور کو ایک گالی دیکر جلدی کرنے چلنے اور بھاگنے کا کہا بہرحال جب حویلی سے باہر نکلے تو باہر تو کوئی نہیں تھا اور وہ دونوں بھاگنے لگے ابن سباط اس اپنے بزرگ ساتھی کو گالیاں بکتا اور جلدی چلنے کا کہتا رہا کیونکہ بوڑھا پیچھے پیچھے رہ جاتا تھا بالآخر بوڑھے چور نے بھاگنے میں ناکامی پر ہارمان لی اور اپنی گٹھڑی بھی ابن سباط کے حوالے کی اور ہانپنے لگا۔
ابن سباط گالیاں بکتا ہوا بوڑھے کو چھوڑ گیا اور دونوں گٹھڑیاں اٹھائیں اور کہیں گم ہوگیا۔ ایک دو دن کے بعد جب ذرا امن ہوا تو اسی طرح وہ بھیس بدل کر شہر کی جاسوسی کرنے اور اپنے بھاگنے کے متعلق معلومات کیلئے آیا تو ناگہاں اس کی نظر اس حویلی پر پڑی لوگ اندر جارہے تھے اسے فوراً خیال آیا کہ آج کتنے دنوں بعد تک لوگ افسوس (مال چوری ہونے کا) کرنے آرہے ہیں تو اس نے دل میں سوچا کہ چلو اس حویلی کے مالک کو تو دیکھ لوں کہ وہ کس طرح کی شکل و صورت رکھتا ہے جب وہ اندر داخل ہوا تو اس حویلی کا صحن جو کہ بڑا ہی وسیع و عریض تھا لوگوں سے بھرا پڑا تھا لوگ شاید مالک مکان کے انتظار میں تھے اور لوگ احترام میں کھڑے ہونا شروع ہوگئے اور ابن سباط تو حیران رہ گیا ارے یہ تو ہی بوڑھا ہے جو اس رات موم بتی اٹھائے آگیا تھا اور خود کو چور کہہ رہا تھا اور میں اس بزرگ کی توہین کررہا تھا مگر انہوں نے جواباً ایسی کوئی بات نہیں کی ان بزرگ ہستی کے اس رویہ نے اس کی دنیا ہی بدل دی ۔اصل دنیا تو کوئی اور ہے جس کا اسے پہلے علم نہیں تھا اور اب علم ہوگیا۔
ابن سباط جو کہ بغداد کا مشہور معروف چور تھا عدالت نے باز نہ آنے پر اس کا ایک ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا مگر یہ ہاتھ کٹا شیطان تھا باز نہ آیا مگر ایک حادثاتی ملاقات (ایک بزرگ شیخ جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ) نے اس کی دنیا ہی بدل دی اور اس نئی دنیا میں آکر اس نے بالکل نئی زندگی اختیار کی۔
ابن سباط جتنی دیر زندہ رہا اس دنیا کی بودوباش اختیار کرکے ابن سباط رحمة اللہ علیہ ہوگئے۔
0 comments:
Post a Comment