Saturday, 16 February 2013

Bid'ah Seyyah...بدعت سیئہ

Posted by Unknown on 22:34 with No comments
صحابہ یا تابعین کے بعد جو بات نو پید ہو وہ بدعت سیئہ ہے یا نہیں؟ کسی نو پید بات کا بدعت سیئہ یا حسنہ ہونا کسی زمانہ پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ کتاب و سنت اور اجماع امت کی موافقت یا مخالف پر ہے تو جس امر کی اصل ، شرع شریف سے ثابت ہو کہ کتاب و سنت اور اجماع کے مخالف نہ ہو وہ ہرگز بدعت سیئہ نہیں خواہ کسی زمانے میں ہو، خود صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہ رائج رہا ہے کہ اپنے زمانے کی بعض نوپید چیزوں کو منع کرتے اور بعض جو جائز رکھتے۔
حضرت امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تراویح کی نسبت فرماتے ہیں
 ’’نعمت البدعتہ ھٰذہِ‘‘ یہ اچھی بدعت ہے حالانکہ تراویح سنت موکدہ ہے
 سیدنا عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو نماز میں بسم اللہ بآواز پڑھتے سن کر فرمایا۔ ’’یا نبی محدث ایاک و الھد یث‘‘ اے میرے بیٹے ! یہ نوپید بات ہے۔ نئی باتوں سے بچ۔
  تو معلوم ہو اکہ ان کے نزدیک بھی اپنے زمانے میں ہونے یا نہ ہونے پر مدار نہ تھا بلکہ نفس فعل کو دیکھتے۔ اگر اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہوتی تو اجازت دیتے ورنہ منع فرما دیتے اور انھیں برا کہتے ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک بات پیدا کرنے والے کو سنت نکالنے والا فرمایا تو قیامت تک نئی نئی باتیں پیدا کرنے کی اجازت فرمائی اور یہ کہ جو نئی بات نکالے گا۔ ثواب پائے گا اور قیامت تک جتنے اس پر عمل کریں گے سب کا ثواب اسے ملے گا، چاہے وہ عبادت ہو یا کوئی ادب کی بات یا کچھ اور ہو مگر یہ بات نہیں کہ جس زمانے کے جاہل جو بات چاہیں اپنی طرف سے نکال لیں اور وہ بدعت حسنہ ہو جائے۔ یہ گفتگو علمائے دین اور پابند شرع مسلمین کے بارے میں ہے کہ یہ جو امر ایجاد کر لیں اور اسے جائز ومستحب کہیں وہ بے شک جائز و مستحب ہے، چاہے کبھی واقع ہو تو اس نیک بات کا کرنے والا ہی سنی کہلائے گا نہ کہ بدعتی۔

0 comments:

Post a Comment