Monday 18 February 2013


کیپٹن عثمان علی شہید

کیپٹن عثمان علی شہید کی ماں اپنے بیٹے کی فریم کی ہوئ تصویر کو بوسہ دے رہی ہیں۔

منتوں سے مانگا تھا تجھ کو اللہ سے
محبتوں میں رکھا تھا تجھ کو سدا سے
 
غم کو تیرے پاس کبھی آنے نہیں دیا
کسی کو کبھی تجھے ستانے نہیں دیا

تیری آواز کانوں میں رس گھولتی تھی
چھپ جانے پہ تیرے آنکھیں تجھے کھوجتی تھیں

تُو جان مدر تھا تو جان پدر بھی تھا
سب کی آنکھوں کا تارا اور بہت نڈر بھی تھا

میرے ہاتھوں کو تُو جب چوما کے گیا تھا
اور دعائیں بھی میری ساتھ تُو لے کے گیا تھا

نہ معلوم تھا مجھ کو تیرا یوں چومنا
نگاہوں میں تیری وہ آنسوؤں کا تیرنا

چھین لے گا تجھ کو ہمیشہ کے لیے
پھر نہ دیکھ پاؤں گی تجھ کو سدا کے لیے

تیری آخری سانس اس مٹی کے لیے نکلی
جس مٹی پہ تو نے پکڑی تھی میری اُنگلی

آج تُو جب بھی یاد آتا ہے بیٹے
آنسوؤں کا اک دریا بہتا ہے بیٹے

تیری صورت نظروں سے ہٹتی نہیں ہے
پر جان میری پھر بھی نکلتی نہیں ہے

تُو امر ہو گیا ہے، جان دے گیا ہے
میرے لال تُو وطن پہ قربان ہو گیا ہے

پاکستان آرمی، زندہ باد

1 comment: