Monday, 4 February 2013

                تجربے سے ثابت ہوا کہ نائی نہیں ہے 

میں بال بنوانے جا رہا تھا۔ راستے میں ہمایوں مل گیا۔ ہمایوں میرا کلاس فیلو تھا، لیکن گھریلو مجبوریوں نے اُسے پرائمری سے آگے پڑھنے نہیں دیا تھا اور آج کل وہ بکریاں چرا رہا تھا۔
میں نے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھائے تو یوں لگا جیسے ہمایوں انتظار میں ہی تھا۔ آؤ دوست کیسے ہیں احوال۔ بڑی دیر سے دکھائی دیے ہو ۔ ہمایوں تو گلے لگتے ہی جیسے چھوٹ پڑا ہو۔ ادھر میرا حال کچھ غیر ہو رہا تھا۔ ہمایوں کے ساتھ لگتے اور اس خیال سے تو جیسے میرے پسینے ہی چھوٹ پڑے تھے کہ اگر کالج کے کسی دوست نے یوں کسی چرواہے کے ساتھ کھلم کھلا باتیں کرتے دیکھ لیا تو، تو میرے خیال میں میں دوستوں کی نظروں میں گر سا جاتا، کیونکہ میرے سارے دوست تقریباً ‘روشن خیال’ گھرانوں کے چشم و چراغ تھے ناں۔ بہر حال میں ہمایوں کی ہر بات کا جواب ہاں، ہوں، نہیں اور سر ہلا کر دینے میں عافیت سمجھ رہا تھا، نائی کی دکان تو نظر آ گئی مگر ہمایوں کی باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔
میں بال بنواتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ ہمایوں بھی کتنا بے وقوف ہے۔ میں تو صرف بیس روپے ہی لے کر نکلا ہوں گھر سے۔۔۔۔ اور اب یہ بھی میرے ہی پیسوں سے بال بنوانے کے چکر میں ہے شاید۔۔۔۔ جاہل کہیں کا۔۔۔۔۔ جائے بکریاں چرائے۔۔۔۔ میں دل ہی دل میں خوب کوس رہا تھا ہمایوں کو کہ اچانک نائی کی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا۔
“ایک تجربے کی بات ہے”، “کیسی بات” میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ “یہ کراچی کے حالات، دِن دہاڑے قتل و غارت، لوڈ شیڈنگ کا عذاب، اوپر سے روز روز کے زلزلے اور سیلاب، لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، نہ پہننے کو کپڑا ہے اور نہ سر چھپانے کو سر میسر ہے، عوام زندگی سے بیزار”۔
“لیکن اس میں تجربے والی کون سی بات ہے؟” میں نائی کی بات کاٹتے ہوئے پوچھ بیٹھا۔
“ان حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا موجود نہیں”
“کیا” ہمایوں نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا
“ہاں دیکھو، اگر خدا موجود ہوتا تو اپنے بندوں کا بے جا خون ہوتے نہ دیکھتا، نہ بھکاری ہوتے نہ ہی لوگ بھوکے مرتے”
“چھوڑوں ان فضول باتوں کو”، میں نائی کو پیسے پکڑاتے ہوئے بولا، کیونکہ بال تو کب کے بن چکے تھے
“لیکن رقم تو تیرا بھائی دے چکا ہے”، نائی نے ہمایوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، میں نے ہمایوں کی طرف دیکھا تو وہ اثبات میں سر ہلا رہا تھا۔ اب مجھے نہایت شرمندگی ہو رہے تھی۔ ہمایوں کے بارے میں بد گمانی سے۔
“تمہیں بال نہیں کٹوانے کیا”۔ دکان سے باہر نکلتے ہوئے میں نے پوچھا، نہیں وہ تو ویسے ہی میں تمہارے ساتھ آ گیا تھا۔
“ادھر آئو ذرا”۔ وہ حلیے سے کوئی نشئی لگ رہا تھا جسے ہمایوں نے آواز دی تھی۔ بکھرے ہوئے بال، لمبی لمبی مونچھیں،
وہ شخص جیسے ہی قریب آیا تو ہمایوں اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے دوبارہ نائی کی دکان میں داخل ہو گیا۔
“ایک تجربے کی بات ہے” ہمایوں نے نائی کو مخاطب کیا۔ “وہ کیا” نائی حیرت سے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولا۔
“میں نہیں سمجھتا کہ اس علاقے میں نائی موجود ہے”۔ ہمایوں نے سنجیدہ لہجے میں بات کی۔ “وہ کیوں” نائی بولا
“اگر اس علاقے میں نائی ہوتا تو یہ اتنی گندی حالت، بکھرے بالوں اور بد نما مونچھوں کے ساتھ آوارہ نا گھومتا”۔ ہمایوں نے نشئی کے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“نہیں بیٹا یہ ہمارے پاس آیا ہی نہیں، ورنہ یہ تمہیں اچھے خاصے حلیے میں نظر آتا”۔ نائی کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔
“تو جی! یہ بھوکے بھی اللہ کے پاس گئے ہی نہیں ۔۔۔۔ بھکاریوں نے بھی کبھی اللہ کے سامنے جھولی پھیلائی ہی نہیں ۔۔۔۔ عوام بھی تو مسجد کی راہ بھول چکے ہیں ۔۔۔۔ ہاں! آج بھی ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔۔۔۔ اگر ۔۔۔۔ اگر در در دستک دینے اور بندوں کے سامنے جھکنے کے بجائے صرف اللہ کے سامنے ہی جھکا جائے ۔۔۔۔ ہاں جی صرف اللہ کے سامنے ۔۔۔۔”
ہمایوں مسلسل بولے جا رہا تھا ۔۔۔ اور میں حیرت کا بت بنا پھٹی نگاہوں سے ہمایوں کے اظہارِ خیال پر تعجب کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ایک چرواہا بھی اس طرح بول سکتا ہے کیا؟
واپس جاتے ہوئے مجھے اپنے اندر ایک حیرت انگیز تبدیلی کا احساس ہوا وہ اس طرح کے راستے میں مجھے اپنے چند کالج کے دوست ملے۔ ہمائیوں اس وقت بھی میرے ساتھ تھا لیکن ان دوستوں سے ملتے وقت مجھے ذرا برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی،

0 comments:

Post a Comment