اس شخص کا حق ادا کرے
ایک دفعہ اراش کا ایک شخص کچھ
اونٹ لے کر مکہ آیا. ابوجہل نے اس کے اونٹ خرید لیئے اور جب اس نے قیمت طلب
کی تو ٹال مٹول کرنے لگا.اور بہت دن تک پیسے نہ دیے
اراشی نے تنگ آکر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جاپکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کردی. دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے. سرداران قریش نے اس شخص سے کہا:'' ہم کچھ نہیں کرسکتے، دیکھو وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ان سے جاکر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے''.
اراشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا اور قریش کے سرداران نے آپس میں کہا:'' آج لطف آئے گا'' . اراشی نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی شکایت بیان کی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابوجہل کے مکان کی طرف روانہ ہوئے. سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگادیا کہ جو کچھ گذرے اس کی خبر لا کر دے.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکٹھائی . اس نے پوچھا :'' کون''. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : '' محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )'' . وہ حیران ہوکر باہر نکل آیا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا :'' اس شخص کا حق ادا کرے''. اس نے کوئی چون و چرا نہ کی. سیدھا اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی.
قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنایا اور کہنے لگا کہ واﷲ! آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا. ابوجہل جب نکلا تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہوگیا اور جب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کے جسم میں جان نہیں ہے. اور اس نے چوں چران کیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کیا ، تمام سردار یہ بات سن کر حیران رہ گئے
(ابن ہشام)
( ''صحیح اسلامی واقعات ''، صفحہ نمبر 12)
اراشی نے تنگ آکر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جاپکڑا اور مجمع عام میں فریاد شروع کردی. دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے. سرداران قریش نے اس شخص سے کہا:'' ہم کچھ نہیں کرسکتے، دیکھو وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ان سے جاکر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے''.
اراشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا اور قریش کے سرداران نے آپس میں کہا:'' آج لطف آئے گا'' . اراشی نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی شکایت بیان کی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابوجہل کے مکان کی طرف روانہ ہوئے. سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگادیا کہ جو کچھ گذرے اس کی خبر لا کر دے.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکٹھائی . اس نے پوچھا :'' کون''. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : '' محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )'' . وہ حیران ہوکر باہر نکل آیا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا :'' اس شخص کا حق ادا کرے''. اس نے کوئی چون و چرا نہ کی. سیدھا اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی.
قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنایا اور کہنے لگا کہ واﷲ! آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا. ابوجہل جب نکلا تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہوگیا اور جب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے اس کے جسم میں جان نہیں ہے. اور اس نے چوں چران کیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کیا ، تمام سردار یہ بات سن کر حیران رہ گئے
(ابن ہشام)
( ''صحیح اسلامی واقعات ''، صفحہ نمبر 12)
0 comments:
Post a Comment