Tuesday, 26 February 2013

Qureshi persecution

Posted by Unknown on 18:56 with No comments
                      قریش کا ظلم و ستم

ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ قریش کی خفیہ سرگرمیوں کا کھوج لگایا جائے اور نئی جنگ کے لیے ان کی حرکات و سکنات اور تیاری کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں سے ۱۰ آدمیوں کا انتخاب کیا اور عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہہ کو ان کا امیر مقرر کیا۔ خبیب بن عدی رضی اللہ تعالی عنہہ بھی ان میں شامل تھے۔
قافلہ اپنی منزل کی طرف چل پڑا یہاں تک کہ عسفان اور مکہ کے درمیان ایک جگہ پہنچ گیا۔ جس کی خبر ’’ھذیل‘‘ کے ایک محلہ کو ہو گئی جسے ’’بنولحیان‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ فوراً اپنے ۱۰۰ ماہر تیراندازوں کے ساتھ اِن کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور اِن کا کھوج لگاتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑے۔ یہاں تک کہ انھوں نے دور سے اپنا گمشدہ شکار دیکھ لیا۔
مسلمانوں کے امیرِقافلہ حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہہ نے سوچا کہ وہ ہمیں بھگا ماریں گے۔لہٰذا انھوں نے اپنے ساتھیوں کو پہاڑ کے اوپر بلند چوٹی پر چڑھ جانے کا حکم دیا۔ بنولحیان کے تیراندازوں نے ان پر تیر و نیزے پھینکنے شروع کر دیے۔ مسلمان دستہ کے امیر حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہہ زخمی ہوگئے اور شہادت کے اعزاز سے سرخرو ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کے ۳ ساتھی بھی زخمی ہو کر جامِ شہادت نوش کر گئے۔ باقی بچ جانے والے ۳ آدمیوں سے کافروں نے کہا کہ اگر وہ اپنا آپ ہمارے حوالے کردیں تو پختہ وعدہ ہے کہ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
یہ تینوں آدمی پہاڑ سے نیچے اُتر آئے۔ کفار کے تیرانداز اور نیزہ باز حضرت خبیب اور حضرت زید بن دثنہ کے قریب ہوئے اور اپنے ازاربند کھول کر انھیں باندھ لیا ۔
تیسرے مسلمان نے اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کرنا اطاعت امیر کی خلاف ورزی سمجھا اور عزم کرلیا کہ وہ بھی موت کو ویسے ہی قبول کرے گا جس طرح عاصم اور ان کے ساتھیوں نے ایمان قبول کیا ہے۔ پھر یہ صاحب بھی اپنی آرزو کے مطابق رتبۂ شہادت پر فائز ہوگئے
حضرت خبیب اور حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہہ نے اپنے بندھن کھولنے کی کوشش کی مگر وہ اس قدر مضبوط تھے کہ یہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پھر سرکش و جابر تیرانداز اِن دونوں اصحاب کو لے کر مکہ چلے گئے جہاں انھیں مشرکین کے ہاتھوں فروخت کردیا۔
شہر میں ہونے والی نیلامی میں ’’خبیب‘‘ نام پکارا گیا تو مقتولِ بدر حارث بن عامر جسے حضرت خبیب نے قتل کیا تھا کے بیٹوں کا ماتھا ٹھنکا۔ انھوں نے ذہن پر دبائو ڈال کر اس نام کو پرکھا تو ان کے دلوں میں حسد و بغض کی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ فوراً اس نام کے شخص کو خریدنے کے لیے بھاگے۔ ان کی اس انتقامی دوڑ میں مکہ کے وہ لوگ بھی شامل ہو گئے جو میدانِ بدر میں اپنے باپ اور سرداروں کو قتل کرا چکے تھے۔
بالآخر یہ سب اِن پر پل پڑے اور انھیں اس مقام کی طرف لے جانے لگے جہاں جا کر وہ ان کے، بلکہ تمام مسلمانوں کے خلاف اپنے حسد کی آگ ٹھنڈی کرنا چاہتے تھے۔
حضرت خبیب، حارث کے گھر میں قید تھے۔ ایک روز حارث کی ایک بیٹی ان کے پاس آئی تو فوراً بھاگتی ہوئی باہر چلی گئی اور لوگوں کو عجیب و غریب چیز دیکھنے کے لیے پکارنے اور کہنے لگی ’’اللہ کی قسم! میں نے اسے انگور کا ایک بہت بڑا گچھا پکڑے دیکھا ہے جس سے یہ انگور کھا رہا تھا جبکہ یہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور مکہ میں انگوروں کا موسم بھی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے خبیب کو عطا کیا ہے۔‘
جب دشمنانِ حق اپنے اس منصوبے میں ناکام ہو کر ناامید اور مایوس ہوگئے تو وہ اس ’’بہادر‘‘ کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے چلے۔ وہ انھیں اس مقام کی طرف لے جا رہے تھے جس کا نام ’’تنعیم‘‘ تھا اور یہی حضرت خبیب کا مقتل قرار پایا۔ وہ حضرت خبیب کو لے کر اس مقررہ جگہ پر پہنچے ہی تھے کہ آپ نے ان سے ۲ رکعت نماز ادا کرنے کی مہلت مانگی۔ انھوں نے اس خیال سے اجازت دے دی کہ شاید وہ اس طرح اللہ و رسول اور دین سے کفر کے اعلان کرنے کے لیے کچھ سوچنا چاہتا ہو۔
حضرت خبیب نے بڑے سکون اور خشوع سے بآواز خفی ۲ رکعت نماز ادا کی۔ اس دوران ان کی روح میں حلاوتِ ایمان یوں مچل رہی تھی کہ ان کا جی چاہ رہا تھا وہ اِن رکعات کو لمبا کریں اور پڑھتے ہی رہیں لیکن انھوں نے اپنے قاتلوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کرلو کہ میں موت سے خائف ہوں تو میں ضرور اس نماز کو مزید طویل کرتا۔‘‘ پھر انھوں نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ لہراتے ہوئے بددعا کی’’اے اللہ! ان کو ایک ایک کرکے گن لے اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے مار دے۔
دشمنانِ حق نے کھجور کے تنوں سے ایک بہت بڑی صلیب تیار کی اور اس کے اوپر حضرت خبیب کو باندھ دیا۔ ہر طرف سے مضبوطی کے ساتھ انھیں باندھا ہوا ہے اور مشرک دشمنی کا بدترین مظاہرہ کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔نیزہ باز اٹھتے اور اپنے نیزے پھینکنے کے لیے نیزہ بدست کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اس موقع پر قریش کا ایک سردار اِن کے قریب آتا ہے اور ان سے کہتا ہے’’کیا تو چاہتا ہے کہ اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیری جگہ ہو اور تو صحیح سلامت اپنے اہلِ خانہ میں ہو؟
حضرت خبیب نے لمحہ بھر کا توقف کیے بغیر اپنے قاتلوں کو مخاطب کرکے بآواز بلند کہا: اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کانٹا چبھے اور میں اپنے اہل و اولاد میں رہوں اور دنیا کی نعمت و سلامتی مجھے میسر ہو۔
حضرت خبیب کے یہ الفاظ گویا نیزوں اور تلواروں کو اپنا کام کر دکھانے کی اجازت دینا تھا اور یہی ہوا کہ یہ نیزے اور تلواریں وحشیانہ انداز میں ان کے جسم پر برس پڑیں۔ مشرکین ظلم و شقاوت کا بدترین مظاہرہ کرنے کے بعد واپس مکہ میں اپنے حسد بھرے گھروں میں آگئے اور حضرت خبیب کا جسدِشہید اس حال میں وہیں چھوڑ آئے کہ نیزہ بازوں اور تلوارزنوں کی ایک جماعت اس کی نگرانی پر مامور تھی تاکہ مسلمان اس کو اتار کر لے نہ جائیں۔ جس وقت ان لوگوں نے حضرت خبیب کو باندھ کر صلیب پر لٹکایا تھا تو حضرت خبیب نے آسمان کی طرف رُخ کرکے گڑگڑا کر اپنے رب سے عرض کیا تھا:
اے اللہ! ہم نے تو تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا دیا۔ اب تو بھی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی خبر پہنچا دے جو ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے اندر یہ شدید احساس پیدا ہوا کہ آپ کے صحابہ مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آپ کو ان میں سے ایک صحابی کا جسد سُولی پر لٹکا ہوا بھی دکھایا گیا۔ آپ نے فوراً حضرت مقداد بن عمرو اور زبیر بن عوام کو بلایا اور ان آدمیوں کی خبر کے لیے روانہ کردیا۔ دونوں جوانمرد اپنے گھوڑوں پر سوار ہوئے اور نہایت تیزرفتاری سے چل پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا اور انھوں نے اپنے ساتھی حضرت خبیب کو صلیب سے نیچے اتار لیا۔ آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ حضرت خبیب کی قبر کہاں ہے۔ شاید یہی ان کے زیادہ شایانِ شان تھا کہ وہ تاریخ کے تذکرے اور زندگی کے ضمیر میں باقی رہیں تو انھیں ’’تختۂ دار پر موجود جوانمرد‘‘ کے طور پر ہی یاد کیا جائے۔

0 comments:

Post a Comment