Saturday, 16 February 2013

امہّات المٔومنین کے مخصوص فضائل
پہلی فضیلت یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان نفوسِ قدسیہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں فرمایا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا ازواج النّبی ہونا بمنظوری رب العٰلمین ہے اور یہ منظوری فی الواقع ان کے لیے فضیلتِ عظیمہ ہے جبکہ کوئی زن و شوہر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ان کے مابین عقد کا درگاہِ رب العزت میں کیا درجہ ہے؟
دوسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج النّبی سے ارشاد فرمایا کہ لستن کاحدِ من النسآ ئِ
 (اے نبی کی بیبیو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو) اس میں صنفِ نازک کا ہر فرد شامل ہے اور کوئی عورت ذات بھی اس سے باہر نہیں جاتی جس سے ثابت ہے کہ ازواج النّبی کا درجہ ہر ایک عورت سے بالا تر اور شانِ خاص کا ہے، دنیا کا جہاں کی عورتوں میں کوئی ان کا ہمسر نہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاجت کے باعث ان کا اجردنیا بھر کی عورتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔
تیسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج النّبی کے بیوت (گھروں ) کو وحی الٰہی کا مہبط (منزل ) بتایا، ان گھروں کو حکمتِ ربّانی کا گہوارہ ٹھہرایا اور سب جانتے ہیں کہ مکان کی عزت مک
ین سے ہوتی ہے۔
چوتھی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج النّبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رفع میں آیتِ تطہیر کو نازل کیا اور قرآن نے فرمایا:
oانما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیتِ ویطھرکم تطھیرا
ترجمہ :اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمائے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا بنا دے۔
اس آیتِ کریمہ سے ما قبل کی آیاتِ کریمہ میں اوّل سے آخر تک تمام کلام کی مخاطب ازواج النّبی ہیں
۔ اس لیے اہل البیت کے لفظ کا خطاب بھی انہیں کے لیے یہ جیسا کہ بیوتکن کا خطاب بھی انہیں کے لیے ہے، اس کی تائید عرفِ عام سے بھی ہوتی ہے کیونکہ صاحبِ خانہ یا گھر والی ہمیشہ بیوی ہی کو کہا جاتا ہے، اہل البیت، گھرو الی کا عربی ترجمہ ہے ، اس لفظ کو وسعت دے کہ ہم ’گھروالوں‘ کا لفظ بولتے ہیں اور اس کے مفہوم میں بیوی کے علاوہ بچوں کو بھی شامل کر لیتے ہیں، بیوی کو متثنےٰ کرکے اہل خانہ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔
غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں آپ کی ازواجِ مطہرات بھی داخل ہیں اور خاتونِ جنّت حضرتِ فاطمہ الزاہراء علی مرتضیٰ ، حسنین کریمین (امام حسن وامامِ حسین) رضی اللہ تعالیٰ عنہم سب داخل ہے، آیات واحادیث کے جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے اور یہی مذہب ہے علمائے اہل سنت کا۔
پانچویں فضیلت یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی ایک آیت 
(وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ (الاٰیۃ) 
میں پہلے تو مؤمنین کو ایذائے رسول سے روکا گیا ہے اور پھرخصوصیت کے ساتھ ازواجِ مطہرات کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایذائے رسول کی جتنی صورتیں ہو سکتی ہیں، اس سب میں زیادہ سخت وہ صورت ہوگی جس میں ازواج النّبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کی شان کے خلاف کوئی رویہ اختیار کیا گیا ہو۔ کیونکہ قرآنِ پاک نے ایذائے رسول کے تحت میں خصوصیت سے یہی بات بیان فرمائی ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ ایک بار ام المٔومنین زینب حجش نے ام المٔومنین صفیہ کو یہودن کہہ دیا، کچھ شک نہیں کہ ان کا نسب یہود بن یعقوب پر ختم ہوتا تھا
۔ مگر کہنے کا انداز و لہجہ حقارت آمیز تھا، اتنی بات پر حضور کچھ عرصہ تک ام المٔومنین زینب کے گھر نہ گئے، جب انہوں نے توبہ کی تو خطا بخشی ہوئی، غرض امہات المٔومنین میں سے کسی کی شان میں گستاخی ، اللہ و رسول کی شان میں دریدہ دہنی ہے اور اسلام وایمان سے محرومی کا دوسرا نام ۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت فضائل قرآن و احادیث میں وارد ہیں جن کی یہاں گنجائش نہیں۔

0 comments:

Post a Comment