سات کے عدد میں حکمت
جہاں
تک سات کے عدد کی تخصیص کا سوال ہے تو اس کی وجہ شارع کے علاوہ کسی کو
معلوم نہیں‘ بلکہ اس کا علم توقیفی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت پر موقوف ہے
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ہی کا عدد فرمایا اور سننے والوں نے اسی کو نقل کیا‘ نہ تو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تخصیص کی وجہ بیان فرمائی اور نہ سننے والوں نے دریافت
کیا‘ جیساکہ رکعات وغیرہ کے اعداد کا مسئلہ ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ سات ہی کا عدد بہتر اور مناسب ہے‘ اس کی حکمت اور حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔
امام
نووی فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کھجور کی تمام اقسام میں سے عجوہ کو خصوصیت
دینا اور پھر سات کے عدد کے ساتھ مخصوص فرمانا یہ امور اسرار سے ہیں جن کی
حکمت ہم تو نہیں سمجھ سکتے‘ لیکن جو کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، اس
پر ایمان رکھنا واجب ہے اور یہی اعتقاد رکھنا چاہئے کہ عجوہ ہی کو برتری
وفضیلت ہے اور اس میں بھی ضرور کوئی حکمت ہے۔
سات کے عدد میں عجیب نقطہ
بعض
اہل علم نے نماز میں سات فرائض کی حکمت یہ لکھی ہے کہ انسان کا جسم سات
چیزوں سے بنا ہے ۱:․․․ مغز یعنی بھیجا‘ ۲:․․․رگیں‘۳:․․․گوشت‘ ۴:․․․پٹھے‘
۵:․․․ہڈیاں‘ ۶:․․․خون‘ ۷:․․․جلد یعنی کھال۔۔۔
یہ سب سات ہوئے، ان ساتوں اجزاء
کے شکریہ میں سات فرض رکھے گئے‘ ہرایک چیز کا شکریہ ایک فرض۔
کیا
بعید ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کھجور کھانے کی تاثیر یہ بیان فرمائی کہ
انسان کا جسم سات اشیاء سے بنا ہے‘ ہر شے کے بدلہ میں ایک کھجور۔
سات عدد کے متعلق علامہ ابن قیم کی تحریر
حافظ ابن قیم جوزی سات کے عدد کی حکمت بیان فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”رہ
گئی سات عدد کی بات تو اس کو حساب اور شریعت دونوں میں خاص مقام حاصل ہے‘
اللہ تعالیٰ نے سات آسمان بنائے‘
سات زمین پیدا کیں‘
ہفتے کے سات دن مقرر
فرمائے‘
انسان کی اپنی تخلیق سات مرحلوں میں ہوئی‘
خدا تعالیٰ نے اپنے گھر
کا طواف اپنے بندوں کے ذمہ سات چکروں سے شروع کیا‘
سعی بین الصفا والمروة
کے چکر بھی سات مرتبہ شروع کئے‘
عیدین کی تکبیریں سات ہیں‘
سات برس کی عمر
میں بچوں کو نماز پڑھنے کی ترغیب دلانے کا حکم ہوا ‘
حدیث میں ہے:
”مروہم بالصلاة وہم سبع سنین “۔
یعنی اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں سات مشکیزہ پانی سے غسل کرانے کے لئے فرمایا:
اللہ تعالٰی نے قوم عاد پر طوفان سات رات تک جاری رکھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ: خدائے پاک! میری مدد فرما ایسے سات سے جیسے سات حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے۔
خداکی
طرف سے صدقہ کا ثواب جو صدقہ دینے والوں کو ملے گا سات بالیوں سے (جو ایک
دانہ سے اگتی ہیں جن میں سو‘سو دانے ہوں) تشبیہ دی‘
اور وہ خواب جو حضرت
یوسف علیہ السلام نے دیکھا، اس میں سات بالیاں ہی نظر آئی تھیں اور جن
سالوں میں کاشت نہایت عمدہ ہوئی‘ وہ سات سال تھے اور صدقہ کا اجر سات سوگنا
تک اور اس سے بھی زائد۔ سات کے ضرب کے ساتھ ملے گا۔
اس
سے اندازہ ہوا کہ سات کے عدد میں ایسی خاصیت ہے جو دوسرے عدد کو حاصل
نہیں‘ اس میں عدد کی ساری خصوصیات مجتمع ہیں‘ اور اطباء کو سات کے عدد سے
خاص ربط ہے۔
خصوصیت سے ایام بحران میں بقراط کا مقولہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز
سات اجزاء پر مشتمل ہے ۔
ستارے سات‘
ایام سات‘
بچہ کی طفولیت کی عمر سات‘
پھر صبی چودہ سال‘ پھر مراہق‘ پھر جو ان‘ پھر کہو لت‘ پھر شیخ پھر ہرم اور
خدائے پاک ہی کو اس عدد کے مقرر کرنے کی حکمت معلوم ہے ‘اس کا وہی مطلب ہے
جو ہم نے سمجھایا ،اس کے علاوہ کوئی معنی ہے اور اس عدد کا نفع خاص اس
چھوہارے کے سلسلے میں جو اس ارض مقدس کا ہو اور اس علاقے کا جو جادو اور
زہر سے دفاع کرتا ہے‘ اس کے اثرات اس کے کھانے کے بعد روک دیئے جاتے ہیں‘
کھجور کے اس خواص کو اگر بقراط وجالینوس وغیرہ اطباء بیان کرتے تو اطباء کی
جماعت آنکھ بند
کرکے تسلیم کر لیتی اور اس پر اس طرح یقین کرتی جیسے نکلتے آفتاب پر یقین
رکھتی ہے‘ حالانکہ یہ اطباء خواہ کسی درجہ کے عاقل ہوں وہ جو کچھ بھی کہتے
ہیں وہ ان کی رسا عقل اور اٹکل یا گمان ہوتا ہے۔
ہمارا پیغمبر جس کی ہر بات
یقینی اور قطعی اور کھلی دلیل وحی الٰہی ہو‘ اس کا قبول وتسلیم کرنا تو
بہرحال ان اطباء سے زیادہ حسن قبولیت کا مستحق ہے‘ نہ کہ اعتراض کا مقام ہے
اور زہر کی دافع دوائیں کبھی بالکیفیت اثر انداز ہوتی ہیں‘ بعض بالخاصیة
اثر انداز ہوتی ہیں ۔
0 comments:
Post a Comment