Saturday, 16 February 2013

توبہ کا طریقہ۔ ۔ ۔ 
توبہ کی اصل، رجوع الی اللہ ہے یعنی خدا کی فرمانبرداری و اطاعت کی طرف پلٹنا۔
 اس کے تین رکن ہیں۔
  ایک گناہ کا اعتراف ۔
  دوسرا گناہ پر ندامت۔
  تیسرا گناہ سے باز رہنے کا قطعی ارادہ۔
 اور اگر گناہ قابل تلافی ہو تو اس کی تلافی بھی لازم ہے مثلاً بے نمازی کی توبہ کے لیے پچھلی نمازوں کی قضا پڑھنا بھی ضروری ہے۔ مولا تعالیٰ کریم ہے۔ اس کے کرم کے دروازے ہر وقت بندوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ توبہ میں جس قدر ممکن ہو جلدی کرنی چاہیے۔ توبہ میں آج کل کرنا مسلمان کی شان نہیں، کیا خبر موت اسے مہلت دے یا نہ دے؟ پل کی خبر نہیں ، کل کس نے دیکھی ہے او ر بہتر ہے کہ جب اپنے لیے دعائے مغفرت یا کوئی بھی دعا کرے تو سب اہل اسلام کو اس میں شریک کر لے کہ اگر یہ خود قابل عطا نہیں تو کسی بندے کا طفیلی ہو کر مراد کو پہنچ جائے گا۔
 حدیث میں آیا ہے کہ جو تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرے۔ نبی آدم کے جتنے بچے پیدا ہوں، سب اس کے لیے استغفار کریں، یہاں تک کہ وفات پائے۔
اور اولیاء و علماء کی مجلسوں میں دعائے مغفرت کرنا بہت بہتر ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بد بخت اور محروم نہیں رہتا۔ یونہی اولیائے کرام کے مزارات پر حاضر ہو کر یا ان کے وسیلہ سے استغفار کرنا قبولیت دعا کا باعث ہے کہ ان کے قرب وجوار پر رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہاں جو دعائیں مانگی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ روا فرماتا ہے
۔
 بالخصوص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجت برآری کا زریعہ اعلیٰ ہیں۔
  آیت کریمہ 
 ولو انھم اذطلمو الآیتہ
 اس پر دلیل کافی، اللہ سبحانہ، و تعالیٰ ہر طرح معاف کر سکتا ہے۔ مگر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر جب کوئی اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے حضور حاضر ہوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور رسول ان کی بخشش چاہے تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں‘‘۔
 اور بعد وفات قبر انور پر حاجت کے لیے جانا بھی صحابہ کرام کے عمل سے ثابت اور حکم مذکور میں داخل ہے۔
اور مقبولانِ بارگاہ کے وسیلے سے دعا بحق فلاں یا بجاہ فلاں کہہ کر مانگنا جائز بلکہ آدم علیہ السلام کی سنت ہے کہ آپ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و مرتبت کے طفیل میں مغفرت چاہی اور حق تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرمائی۔

0 comments:

Post a Comment