ایک اور حدیث شریف میں ہے اختصر لی اختصارا یعنی میرے لیے کمال اختصار کیا گیا۔
(۱)
(۱)
مجھے اختصارِ کلام بخشا کہ تھوڑے لفظ ہوں او ر معنی زیادہ۔
(۲)
(۲)
میرے لیے زمانہ کو مختصر کیا کہ میری امت کو قبروں میں کم وقت کے لیے رہنا پڑے گا۔
(۳)
(۳)
میرے لیے امت کی عمریں کم کیں کہ دنیا کے مکروہات سے جلد خلاصی پائیں، گناہ کم ہوں اور نعمتِ باقی تک جلدپہنچیں۔
(۴)
(۴)
میرے غلاموں کے لیے پل صراط کی راہ (کہ پندرہ ہزار بر س کی ہے) اتنی مختصر
کر دی گئی کہ چشم زدن میں گزر جائیں گے جیسے بجلی کَوند گئی۔ (بخاری
ومسلم)
(۵)
(۵)
قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہے، میرے غلاموں کے لیے اس سے
کم دیر میں گزر جائے گا جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھا کرتے ہیں۔ (احمد و
بہیقی)
(۶)
(۶)
میری امت کے تھوڑے عمل پر اجز زیادہ دیا۔
( ۷)
( ۷)
وہ علوم و معارف جو ہزار سال کی محنت دریاضت میں حاصل نہ ہو سکیں ، میری چند روزہ خدمت گاری میں میرے اصحاب پر منکشف فرمائے۔
(۸)
(۸)
زمین سے عرش تک لاکھوں برس کی راہ میرے لیے ایسی مختصر کر دی کہ آنا اور
جانا اور تمام مقامات کو تفصیلاً ملاحظہ فرمانا سب تین ساعت میں ہو لیا۔
(۹)
(۹)
مجھ پر وہ کتاب اتاری جس کے معدود ورقوں میں تمام گذشتہ اور آئندہ چیزوں
کا روشن، مفصل بیان ہے، جس کی ہر آیت کے نیچے ساٹھ ساٹھ ہزار علم، جس کی
ایک آیت کی تفسیر سے ستر ستر اونٹ بھر جائیں۔
(۱۰)
(۱۰)
مشرق تا مغرب اتنی
وسیع دنیا کو میرے سامنے ایسا مختصر کر دیا کہ میں اسے اور جو کچھ اس میں
قیامت تک ہونے والا ہے، سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسا اپنی اس ہتھیلی کو
دیکھ رہا ہوں۔ (طبرانی وغیرہ)
(۱۱)
(۱۱)
اگلی امتوں پر جو اعمال شاقہ (مشقت
طلب) طویلہ تھے ، میری امت سے اٹھا لیے پچاس نمازوں کی پانچ رہیں اور حسابِ
کرم وثواب میں پوری پچاس ، زکوٰۃ میں چہارم مال کی جگہ چالیسواں حصہ فرض
رہا اور اجر و ثواب میں وہی چہارم کا چہارم، وعلیٰ ہذالقیاس۔
یہ حضور کے اختصارِ کلام سے ہے کہ ایک لفظ کے اتنے کثیر معنی (افادیت رضویہ)
(۱۲)
یہ حضور کے اختصارِ کلام سے ہے کہ ایک لفظ کے اتنے کثیر معنی (افادیت رضویہ)
(۱۲)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منصبِ شفاعت دیا گیا۔
ارشادِ گرامی ہے:
واعطیت الشفاعۃ o
ترجمہ: یعنی مجھے شفاعت کا حق دیا گیا۔
شفاعت کی حدیثیں بھی متواتر ہیں اور ہر مسلمان صحیح الایمان کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ قبائے کرامت، اس مبارک قامت، شایانِ امامت، سزااور سیادت کے سوا کسی قدِ بالا پر راست نہ آئی، نہ کسی نے بارگاہِ الٰہی میں ان کے سوا یہ وجاہت عظمٰی و محبوبیتِ کبریٰ واذنِ سفارش واختیار گذارش کی دولت پائی۔
روزِ قیامت کہ تمام اولین و آخرین ایک مدیان وسیعے و ہموار میں جمع ہوں گے اور گرمی آفتاب سے طاقت طاق ہوگی خود ہی تجویز کریں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے، ان کے پاس جائیں گے ، شفاعت کے لیے عرض کریں گے ، آپ فرمائیں گے نفسی نفسی اذھبو آ الیٰ غیری oمجھے اپنی جان کی فکر ہے تم نوح کے پاس جاؤ اور یونہی باری باری تمام لوگ حضرتِ نوح علیہ السلام ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور سب جگہ سے مایوس ہو کر تھکے ہارے، مصیبت، کے مارے، ہاتھ پاؤں چھوڑے ، چاروں طرف سے امیدیں توڑے، مولائے دو جہاں حضور پر نور محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عرش جاہ بیکس پناہ میں حاضر ہوں گے اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں ان کی سفارش فرما کر ان کی بگڑی بنا ئیں گے۔
تمام اہل محشر کا حضور سے پہلے دیگر انبیائے کرام کے پاس حاضر ہونا اور دفعۃً حضور کی خدمت میں حاضری نہ دینا اور میدانِ قیامت میں (کہ صحابہ و تابعین ، ائمۂ محدثین اور اولیائے کا ملین بلکہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء سبھی موجود ہوں گے) اس جانی پہچانی بات کا ان کے دلوں میں سے بھلا دیا جانا، صاف بتا رہا ہے کہ یہ سارے انتظامات اس لیے کیے گئے کہ اولین و آخرین، موافقین و مخالفین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و وجاہت کا راز کھل جائے اور کسی شخص کو یہ شبہہ باقی نہ رہے کہ اگر ہم سرورِ عالم کے سوا کسی دوسرے کے پاس جاتے تو ممکن تھا کہ وہ بھی شفاعت کر ہی دیتے، اب جبکہ ہر جگہ سے صاف جواب مل جائے گا تو سب کو بالیقین معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصبِ رفیع حضور ہی کی خصوصیتِ خاصہ کا مظہر ہے۔
٭ لطیفہ ٭
ہم کہتے ہیں شفاعت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہے اور ہم قطعاً حق پر ہیں ان کے کرم سے ہمارے لیے ہوگی، وہابی کہتے ہیں شفاعت محال ہے اوروہ ٹھیک کہتے ہیں ، امید ہے کہ ان کے لیے نہ ہوگی۔
گر بر تو حرامست ، حرامت بادہ
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزِ قیامت میری شفاعت حق ہے تو جو اس پر یقین نہ لائے وہ اس کے لائق نہیں۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کی پانچ دس کیا سو اور دو سو پر بھی انتہاء نہیں، امامِ سیوطی نے ڈھائی سو کے قریب خصائص شمار کئے ، ان سے زیادہ علم والے زیادہ جانتے تھے اور علمائے ظاہر سے علمائے باطن کو زیادہ معلوم ہے پھر صحابہ کرام کا علم ہے اور ان کے علوم سے ہزاروں منزلیں آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے جس قدر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فضائل و خصائص جانتے ہیں، دوسرا کیا جانے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ان کا مالک و مولیٰ ہے جس نے ہزاروں فضائل عالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے اور بے حدوبے شمار ابد الآباد کے لیے رکھے، اسی لیے حدیث میں ہے’’ اے ابو بکر! مجھے ٹھیک ٹھیک جیسا ہوں، میرے رب کے سوا کسی نے نہ پہچانا‘‘ (مطالع المسرات)
تُرا چناں کہ توئی دیدئہ کجا بیند
بقدرِ بینش خود، ہر کسے کندادراکoصلی اللہ علیک وعلیٰ اٰلک واصحابک اجمعین
ارشادِ گرامی ہے:
واعطیت الشفاعۃ o
ترجمہ: یعنی مجھے شفاعت کا حق دیا گیا۔
شفاعت کی حدیثیں بھی متواتر ہیں اور ہر مسلمان صحیح الایمان کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ قبائے کرامت، اس مبارک قامت، شایانِ امامت، سزااور سیادت کے سوا کسی قدِ بالا پر راست نہ آئی، نہ کسی نے بارگاہِ الٰہی میں ان کے سوا یہ وجاہت عظمٰی و محبوبیتِ کبریٰ واذنِ سفارش واختیار گذارش کی دولت پائی۔
روزِ قیامت کہ تمام اولین و آخرین ایک مدیان وسیعے و ہموار میں جمع ہوں گے اور گرمی آفتاب سے طاقت طاق ہوگی خود ہی تجویز کریں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے، ان کے پاس جائیں گے ، شفاعت کے لیے عرض کریں گے ، آپ فرمائیں گے نفسی نفسی اذھبو آ الیٰ غیری oمجھے اپنی جان کی فکر ہے تم نوح کے پاس جاؤ اور یونہی باری باری تمام لوگ حضرتِ نوح علیہ السلام ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور سب جگہ سے مایوس ہو کر تھکے ہارے، مصیبت، کے مارے، ہاتھ پاؤں چھوڑے ، چاروں طرف سے امیدیں توڑے، مولائے دو جہاں حضور پر نور محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عرش جاہ بیکس پناہ میں حاضر ہوں گے اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں ان کی سفارش فرما کر ان کی بگڑی بنا ئیں گے۔
تمام اہل محشر کا حضور سے پہلے دیگر انبیائے کرام کے پاس حاضر ہونا اور دفعۃً حضور کی خدمت میں حاضری نہ دینا اور میدانِ قیامت میں (کہ صحابہ و تابعین ، ائمۂ محدثین اور اولیائے کا ملین بلکہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء سبھی موجود ہوں گے) اس جانی پہچانی بات کا ان کے دلوں میں سے بھلا دیا جانا، صاف بتا رہا ہے کہ یہ سارے انتظامات اس لیے کیے گئے کہ اولین و آخرین، موافقین و مخالفین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و وجاہت کا راز کھل جائے اور کسی شخص کو یہ شبہہ باقی نہ رہے کہ اگر ہم سرورِ عالم کے سوا کسی دوسرے کے پاس جاتے تو ممکن تھا کہ وہ بھی شفاعت کر ہی دیتے، اب جبکہ ہر جگہ سے صاف جواب مل جائے گا تو سب کو بالیقین معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصبِ رفیع حضور ہی کی خصوصیتِ خاصہ کا مظہر ہے۔
٭ لطیفہ ٭
ہم کہتے ہیں شفاعت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہے اور ہم قطعاً حق پر ہیں ان کے کرم سے ہمارے لیے ہوگی، وہابی کہتے ہیں شفاعت محال ہے اوروہ ٹھیک کہتے ہیں ، امید ہے کہ ان کے لیے نہ ہوگی۔
گر بر تو حرامست ، حرامت بادہ
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزِ قیامت میری شفاعت حق ہے تو جو اس پر یقین نہ لائے وہ اس کے لائق نہیں۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کی پانچ دس کیا سو اور دو سو پر بھی انتہاء نہیں، امامِ سیوطی نے ڈھائی سو کے قریب خصائص شمار کئے ، ان سے زیادہ علم والے زیادہ جانتے تھے اور علمائے ظاہر سے علمائے باطن کو زیادہ معلوم ہے پھر صحابہ کرام کا علم ہے اور ان کے علوم سے ہزاروں منزلیں آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے جس قدر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فضائل و خصائص جانتے ہیں، دوسرا کیا جانے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ان کا مالک و مولیٰ ہے جس نے ہزاروں فضائل عالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے اور بے حدوبے شمار ابد الآباد کے لیے رکھے، اسی لیے حدیث میں ہے’’ اے ابو بکر! مجھے ٹھیک ٹھیک جیسا ہوں، میرے رب کے سوا کسی نے نہ پہچانا‘‘ (مطالع المسرات)
تُرا چناں کہ توئی دیدئہ کجا بیند
بقدرِ بینش خود، ہر کسے کندادراکoصلی اللہ علیک وعلیٰ اٰلک واصحابک اجمعین
0 comments:
Post a Comment