سیاست
بیسویں صدی کے عشرہ اول میں پنجاب کی مسلم آبادی ایک ٹھہراؤ میں مبتلا
تھی ۔ کہنے کو مسلمانوں کے اندر دو سیاسی دھڑے موجود تھے مگر دونوں
مسلمانوں کے حقیقی تہذیبی ، سیاسی اور معاشی مسائل سے بیگانہ تھے ۔ ان میں
سے ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی اور دوسرا سر فضل حسین بھی
اپنے اپنے حمایتیوں کو لے کر پہنچے ۔طے پایا کہ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ
قائم کی جائے ۔ اس فیصلے پر فوری عمل ہوا ۔ میاں شاہ دین صدر بنائے گئے اور
سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل ۔ سر فضل حسین عملاً الگ تھلگ رہے ۔ اقبال ان
سب قائدین کے ساتھ دوستانہ مراسم تو رکھتے تھے مگر عملی سیاست سے انھوں نے
خود کر غیر وابستہ ہی رکھا ۔
۱۹۱۱ء تک متحدہ ہندوستان کے اکثر مسلمان قائدین ، سرسید کے حسب فرمان ،
انگریزی حکومت کی وفاداری کا دم بھرتے رہے ، لیکن ۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۲ء کے بیچ
کے عرصے میں حالات جو ایک ڈھرّے پر چلے جارہے تھے ، اچانک پلٹا کھا گئے ۔
مسلمان سیاست دان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے ، انگریز بھی ایسا ہی چاہتے
تھے ، مگر ہندو اس منصوبے کے سخت مخالف تھے ۔ ان کی جانب سے تشدّد کی راہ
اختیار کی گئی تو انگریزی حکومت نے سپر ڈال دی ۔ تقسیم بنگال کو منسوخ
کردیا گیا ۔ اس جھٹکے نے مسلمان قائدین کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے گزشتہ
اندازِ فکری کی غلطی ان پر واضح ہوگئی ۔ انھیں اب آکر احساس ہوا کہ اپنی
قومی اور سیاسی زندگی کے تحفظ کے لیے صرف سرکار کی وفاداری پر کمر بستہ
رہنا یا انگریزوں کے بنائے ہوئے آئینی ذرائع اختیار کیے رکھنا ناکافی اور
بے معنی ہے ۔ بقول مولانا شبلی تقسیم بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے چہرے پر
ایک ایسا تھپّڑ مارنے کے مترادف تھی ، جس نے ان کے منہ کا رُخ پھیر کر رکھ
دیا۔
تقسیم بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری ۱۹۱۲ء کو موچی دروازہ
لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا ، جس میں اقبال بھی شریک
ہوئے ۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں ۔ اقبال کی باری آئی
تو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا مینار بن کر اُٹھے اور فرمایا: ’’مسلمانوں کو
اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پاؤں مارنے چاہیئں ۔ ہندوؤں کو اب تک جو کچھ
ملا ہے ، محض اپنی کوششوں سے ملا ہے۔ اسلام کی تاریخ دیکھو وہ کیا کہتی ہے ۔
عرب کے خطّے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ
کہہ دیاتھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہوسکتی ۔ ایشیا اور یورپ کی
قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل
سے کام لیا تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا ، اور
خدا قسم ! روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی ،
یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بَل پر کھڑی ہوئی۔! ‘‘
اس تقریر سے مجمع میں رواں دواں لمحاتی اور بے جہت جوش و خروش اپنی قوم
کے زندہ تشخص کے لیے درکار ایک بامعنی قوت میں بدل گیا جو ابھی محدود تھی
مگر آگے چل کر اسے وسعت پکڑنی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کے چند حلقوں
میں بیداری کے آثار پیدا ہوچلے تھے ، مگر اس بیداری کے مراکز ایک دوسرے سے
لاتعلق چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح بٹے ہوئے تھے ۔ متفقہ ملّی قیادت میسر
نہیں تھی ۔ نتیجتہً مسلمانوں کے اندر متحدہ ہندی قومیت کا رجحان پیدا ہوچلا
تھا ۔ مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے اجلاس ساتھ ساتھ ہونے لگے تھے ۔ابھی
اقبال عملی سیاست سے الگ تھے مگر مسلم قومیت کے اس اصول پر پوری طاقت کے
ساتھ قائم تھے جو ان پر قیامِ انگلستان کے زمانے میں منکشف ہوا تھا۔ یورپ
سے واپسی کے بعد ۱۹۱۴ء تک کا زمانہ اقبال کی بنیادی فکر کی تشکیل و تکمیل
کا زمانہ ہے۔ یورپ میں جنگِ عظیم شروع ہوچکی تھی۔ اس کے اثرات ہندوستان میں
بھی نمایاں ہوئے ۔ انگریزی حکومت کا رویہّ سخت سے سخت تر ہوتا گیا جو جنگ
کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہا ۔ انگریزی حکومت کے خلاف تحریکوں نے زور
پکڑ لیا تھا۔
۱۳۔ اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر شہر کے جلیانوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ
کیا گیا ۔ رُسوائے زمانہ جنرل ڈائر نے لوگوں کو گھیرے میں لے کر اندھا دھند
فائرنگ کروائی اور سیکڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ گو کہ اقبال نے اس
مانے میں خانہ نشینی اختیار کر رکھی تھی لیکن اس حادثے کی دھمک ان کے دل تک
بھی پہنچی ۔ انھوں نے مرنے والوں کی یاد میں یہ اشعار کہے
؎ ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ پاک
غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اس نہال سے
عبدالمجید سالک اپنی کتاب ’’ذکر اقبال‘‘میں تحریر کرتے ہیں:
’’اب پورا ملک بلا امتیاز مذہب و ملت احتجاج اور تنفر کا ہنگامہ زار بن
رہا تھا ۔ مسلمانوں کے دلوں پر جلیانوالہ باغ اور پنجاب کے مظالم سے بھی
زیادہ گہرا چرکا ترکی کی شکست سے لگ چکا تھا جس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ
ترکان آلِ عثمان کی آزادی و خودمختاری خاک میں ملادی جائے گی خلافت اسلامیہ
کی مسند کے گرد فرنگی گدھ منڈلا رہے تھے۔‘‘
اسی سال ستمبر کے مہینے میں مولانا محمدعلی جوہر چار سالہ نظر بندی کاٹ
کے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اس مشہور احتجاجی جلسے میں شرکت کے لیے لکھنؤ
پہنچے جس میں خلاف کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ خلافت کانفرنس کی تشکیل سے
مسلمانوں نے بڑی امیدیں باندھ رکھی تھیں مگر بدقسمتی سے آگے چل کر اس نے
کانگریس سے اتحاد کرلیا اور اس کے لیڈروں نے گاندھی کو اپنا قائد مان لیا ۔
اقبال صوبائی خلافت کمیٹی کے رُکن تھے لیکن حالات کی اس تبدیلی نے ان کا
قائدینِ خلافت سے شدید اختلاف پیدا کردیا ۔ وجہ اختلاف دو باتیں تھیں:
اوّل یہ کہ اقبال اس حق میں نہ تھے کہ خلافت وفد مذاکرات کے لیے انگلستان جائے، وہ اسے انگریز کی چال سمجھتے تھے۔
دوم یہ کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر عدم تعاون کی تحریک چلانے کو
مسلمانوں کے لیے مضر خیال کرتے تھے کیونکہ کسی قابلِ قبول ہندو مسلم معاہدے
کے بغیر محض انگریز دشمنی کی مشترکہ بنیاد پر متحدہ قومیت کا ناقص تصّور
مسلمانوں کی جداگانہ ملّی حیثیت کو ختم کردے گا۔ یہ اختلافات حل نہ ہوئے تو
اقبال صوبائی خلافت کمیٹی سے الگ ہوگئے ۔ اقبال کی بصیرت نے بھانپ لیا تھا
کہ خود خلافتِ عثمانیہ کا مستقبل مخدوش ہے لہذا مسلمان اقوام کے ملّی
اتحاد کی بنیاد اس کی بجائے کسی اور اصول پر رکھنی چاہیے۔
۱۶۔ اپریل ۱۹۲۲ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے
اپنی طویل نظم’’خضر راہ‘‘سنائی۔ عبدالمجید سالک وہاں موجود تھے ۔ وہ لکھتے
ہیں :
’’ایک تو اس نظم میں اقبال کے شاعرانہ تخیل اور بدیع اسلوب کا جمال پوری
تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا اور ایک ایک شعر پر اربابِ ذوقِ سلیم وجد کر
رہے تھے ، دوسرے اس میں علامہ نے جنگ عظیم کے سلسلے میں فاتح اقوام کی
دھاندلی، ان کی ابلیسانہ سیاست ، سرمایہ داری کی عیارّی ، مزدور کی بیداری
عالم اسلام خصوصا ترکانِ آلِ عثمان کی بے دست و پائی پرمؤثر اور بلیغ تبصرہ
کیا ہے اور اسی سلسلے میں نسلی قومیت اور امتیاز رنگ وخون کے خیالات پر
بھرپور چوٹ کی ہے‘‘۔
جنوری ۱۹۲۳ء کو اقبال کر سَر کا خطاب ملا ۔ ان کے پُرانے دوست میر غلام
بھیک نیرنگ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب آپ شاید آزادیٔ اظہار سے کام نہ لے
سکیں تو اقبال نے جواب میں تحریر کیا :
’’میں آپ کو اس اعزاز کی اطلاع خود دیتا مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے
والے ہیں ، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فرو تر ہیں ۔ سیکڑوں
خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں
کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں ۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس
ہوا ہے ۔ سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے
اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان
نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں ، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز
نہیں رکھ سکتی ۔ ان شاء اﷲ۔
۳۰ ۔ مارچ ۱۹۲۳ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں اقبال نے اپنی معروف
نظم ’’طلوع اسلام‘‘ پڑھی ۔ یہ نظم یونانیوں پر ترکوں کی فتح کے موقعے پر
لکھی گئی تھی ۔ نظم کیا ہے مسلمانوں کے روشن مستقبل کا پیغام ہے
؎ دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
خلافت کانفرنس نے برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات ابھار کر انھیں اس طرح
اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کہ مسلم لیگ کا وجود آنکھوں سے اوجھل ہوگیا ۔
۱۹۲۴ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی لگاتار کوششوں سے اس کا احیا ہوا ۔
ادھر پنجاب میںبھی مسلم سیاست بحران کا شکار تھی۔ مسلمانوں کے اندر شہری
اور دیہاتی جھگڑا کھڑا ہوگیا تھا ، جس نے یونینسٹ پارٹی کو جنم دیا ۔ ۱۹۲۳ء
کے صوبائی انتخبات کے موقعے پر اقبال سے اصرار کیا گیا کہ لیجسلیٹوکونسل
کا الیکشن لڑیں مگر انھوں نے انکار کردیا کیونکہ ان کے قریبی دوست میاں
عبدالعزیز بیرسٹر اسی حلقے سے اپنی امیدواری کا اعلان کرچکے تھے جو اقبال
کے لیے تجویز کیا جا رہا تھا ۔ اقبال حسبِ معمول وکالت میں مصروف تھے کہ
۱۹۲۶ء آ گیا ۔ اس سال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے دوبارہ انتخابات ہونے تھے ۔
دوستوں نے پھر زور ڈالا ۔ اس مرتبہ میاں عبدالعزیز نے بھی کہہ دیا کہ وہ
اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی مدد کریں گے ۔ اس بار اقبال
مان گئے ۔ امیدواری کا باقاعدی اعلان چھاپ دیا گیا ۔ الیکشن ہوئے ، ظاہر
ہے کہ اقبال ہی کو کامیاب ہونا تھا ۔ کونسل کے اندر یونینسٹ پارٹی اکثریت
میں تھی ۔ اس کی قوّت کو مسلمانوں کے قومی مفاد میں استعمال کرنے کے لیے
اقبال یونینسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے مگر جب اس جماعت کی ناقابلِ اصلاح
خرابیاں مشاہدے میں آئیں تو اقبال نے علیحدگی اختیار کرلی ۔ باقی مدت ایک
تنہا رُکن کی حیثیت سے گزار دی ۔ اسی سال پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے
سیکرٹری بنائے گئے جس سے برّصغیر کی مسلم سیاست کا دروازہ ان پر کھل گیا ۔
اب اقبال عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔
ہندوؤں کی طرف شدھی اور سنگھٹن کی رُسوائے زمانہ تحریکوں کا زور تھا جس
کی وجہ سے قدم قدم پر ہندو مسلم فسادات ہو رہے تھے ۔ ان فتنوں کا تدارک
کرنے کے لیے مسلمانوں میں بھی مختلف تبلیغی مشن بنائے جارہے تھے ۔ غلام
بھیک نیرنگ نے ایسی ہی ایک جماعت کی مدد کے لیے لکھا تو علامہ نے اپنی
خدمات پیش کرتے ہوئے تحریر کیا:
’’میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے ۔ اگر
ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے
اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے
روییّ سے معلوم ہوتا ہے ، تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں
گے۔‘‘
دیکھنے میں تو یہ سیدھے سادے دو جملے ہیں مگر علامہ کے اس ارشاد میں تحریکِ پاکستان کا جوہر سمایا ہوا ہے۔
۲۔ جنوری ۱۹۲۹ء کو اقبال دہلی سے جنوبی ہند کے دورے پر روانہ ہوگئے ۔
وہاں الہیات اسلامیہ کی نئی تشکیل کے موضوع پر مدراس ، میسور ، بنگلور اور
حیدرآباد دکن میں خطبات دیے۔ حبّوری کے آخر میں لاہور واپس پہنچ گئے۔
۱۹۲۹ء ہی میں افغانستان کے ساتھ اقبال کے عملی تعلق کی ابتدا ہوئی ۔ ۱۷
جنوری ۱۹۲۹ء کو بچّہ سقّہ نے امیرامان اﷲ خان والیٔ افغانستان کو ملک بدر
کر کے کابل پر قبضہ کر لیا۔ پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا ۔ آخر جنرل
نادر خان بچہّ سقہّ کی سرکوبی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ اقبال انھیں جانتے
تھے ۔ علامہ نے مختلف ذرائع سے ان کی مدد کی۔
جنرل نادر خان کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے اقبال نے برّصغیر کے
مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جسے دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج
ہم بھی اس کے مخاطب ہیں: ’’اس وقت اسلام کی ہزارہا مربع میل سر زمین اور
لاکھوں فرزندان اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے اور ایک درد مند اور
غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانان ہند پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ
وہ افغانستان کو بادِ فنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لیے جس قدر دلیرانہ
کوشش بھی ممکن ہوکر گزریں۔‘‘
فلسطین میں یہودیوں بڑھتے ہوئے پُرتشدّد غلبے اور خاص طور پر مسجدِ
اقصیٰ پر ان کے ناپاک قبضے کے خلاف ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے احتجاجی
جلسے ہورہے تھے ، ۷۔ ستمبر۱۹۲۹ء کو اقبال کی صدارت میں ایسا ہی ایک عظیم
الشان جلسہ ہوا۔ اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا: ’’یہ بات قطعاً غلط ہے کہ
مسلمانوں کا ضمیر حبّ ِ وطن سے خالی ہے ۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حبّ ِ وطن کے
علاوہ مسلمانوں کے دل میں دینیت و محبّت اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود
رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملّت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کر
دیتا ہے اور کر کے چھوڑے گا اور ہمیشہ کرتا رہے گا ...... ۱۹۱۴ء میں
انگریز مدبرّوں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلۂ کار
بنایا ، صہیونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع
استعمال کیے ان میں ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔ یہودی مسجدِ اقصیٰ کے
ایک حصّے کے مالکانہ تصرّف کا دعوٰی کر رہے ہیں ۔ انھوں نے آتشِ فساد
مشتعل کر رکھی ہے ۔ مسلمان ، ان کی عورتیں اور بچّے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح
کیے جارہے ہیں ..... اب حکومتِ برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقاتِ حالات کے
لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کیا ہے مگر میں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ
مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں۔‘‘ ۱۹۳۰ء کا سال پاکستان اور اقبال
دونوں حوالوں سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ دسمبر کی انتیسویں تاریخ کو
الٰہ آباد کے شہر میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا ۔ قائداعظم
پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لے لندن گئے ہوئے تھے ۔ آپ کے ارشاد کے
مطابق اس اجلاس کی صدارت اقبال کو کرنی تھی ۔ یہیں انھوں نے وہ تاریخ ساز
خطبۂ صدارت دیا جو خطبۂ الہ آباد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خطبے میں پہلی
مرتبہ ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کا ٹھوس اور غیر مبہم خاکہ پیش
کیا گیا۔
برطانوی حکومت نے دوسری گول میز کانفرنس میں اقبال کو بھی مدعو کیا ۔
لندن جانے کے لیے ۸ ۔ ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے روانہ ہوئے ۔ اگلی صبح دہلی
پہنچے ۔ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہزاروں کا مجمع استقبال کو موجود تھا ۔
۱۰ ۔
ستمبر ۱۹۳۱ء کو بمبئی پہنچے ۔ اگلے روز وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے
انگلستان کے لیے روانہ ہوگئے اور ۲۷ ۔ ستمبر کو لندن پہنچ گئے ۔ ویسے تو
اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے گئے مگر انگلستان میں ان کی
علمی اور ادبی شہرت نے جو سیاسی شہرت سے کہیں بڑھی ہوئی تھی ، ان کی
مصروفیات کو دو حصّوں میں بانٹ دیا ۔ کانفرنس کی ابتداء ہی سے کچھ ایسے
آثار رونما ہونے شروع ہوئے کہ اقبال بد دل ہوگئے ۔ کچھ اجلاسوں میں ایک
اندازِ لاتعلقی کے ساتھ شریک رہے مگر جب کسی بھی مثبت نتیجے سے بالکل
مایوسی ہوگئی تو بآلاخر ۱۹ نومبر ۱۹۳۱ء کو مسلمان وفد سے الگ ہو کر اس
کانفرنس سے علانیہ کنارہ کش ہوگئے ۔ اب لندن میں ٹھہرنا بیکار تھا ۔ مولانا
غلام رسول مہر کو ساتھ لے کر ۲۲۔ نومبر کی رات روم پہنچے ۔
۲۱۔
مارچ کو لاہور میں اقبال کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم کانفرنس کا
اجلاس ہوا ۔ اقبال نے خطبۂ صدارت پڑھا ، جس میں انھوں نے دوسری گول میز
کانفرنس کا ماجرا سنایا، اس زمانے کے اہم سیاسی مسائل کا گہرا جائزہ لیا
اور مستقبل کی تعمیر کے امکانات پر نظر ڈالی ۔ یہ خطبہ ہر لحاظ سے بہت اہم
ہے ۔ اسے نظر انداز کر کے برّصغیر کی مسلم تاریخ کے جوہر کو نہیں سمجھا جا
سکتا۔ ۱۹۳۲ء کے آخر میں برطانوی حکومت کی طرف سے لندن میں تیسری گول میز
کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اقبال اس مرتبہ بھی بلائے گئے۔ ۱۷۔ اکتوبر
۱۹۳۲ء کو انگلستان روانہ ہوئے ۔ ۳۰ دسمبر تک وہیں رہے ۔ اقبال نے پھر
کانفرنس میں کوئی دلچسپی نہ کی ، کیوں کہ اس میں اُٹھائے گئے بیشتر مباحث
وفاق سے متعلق تھے ، جس سے اقبال کوئی سروکار نہ رکھتے تھے ۔ وہ تو
ہندوستان کے اندر صوبوں کی ایسی خودمختاری کے قائل تھے جس میں مرکزی حکومت
نام کی کوئی شے موجود نہ ہو ۔ صوبوں کا براہِ رات تعلق لندن میں بیٹھے ہوئے
وزیرِ ہند سے ہو۔
برّصغیر میں مسلم سیاسی جماعتیں سخٹ انتشار اور افتراق میں مبتلا تھیں ۔
اپنا اپنا راگ الاپا جا رہا تھا ۔ مسلمانوں کے قومی مستقبل کا مسئلہ عملاً
فراموش کیا جا چکا تھا ۔ قائداعظم مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے، یہ سب
دیکھنے اور کُڑھنے کو ایک اقبال رہ گئے تھے ، لیکن قدرت کو مسلمانوں کی
بہتری منظور تھی ، اقبال اور دوسرے مخلصوں کے اصرار پر قائداعظم ہندوستان
واپس آگئے اور
۴۔
مارچ ۱۹۳۴ء کو مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۔ لیگ کے تن
مردہ جان پڑ گئی اور برّصغیر کے مسلمانوں کے دن پھرنے کا آغاز ہوگیا۔
۶۔
مئی ۱۹۳۶ء کو حضرت قائداعظم رحمتہ اﷲ علیہ اقبال سے ملنے ’’جاوید
منزل‘‘ تشریف لائے ۔ آپ نے اقبال کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا
ممبر بننے کی دعوت دی جسے اقبال نے اپنی شدید علالت کے باوجود بخوشی قبول
کرلیا۔
۱۲۔
مئی کو اقبال دوبارہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے. آپ کی
تعلیمات اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض
وجود میں آیا۔
0 comments:
Post a Comment