تدریس ،وکالت اور سماجی خدمات
ابتداء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے
فرائض سرانجام دیے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے
ساتھ ساتھ آپ شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز
میں حصہ لیا۔ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔ اقبال انجمن حمایت اسلام کے اعزازی صدر بھی رہے۔
اگست ۱۹۰۸ء میں اقبال لاہور آگئے ۔ ایک آدھ مہینے بعد چیف کورٹ پنجاب
میں وکالت شروع کردی ۔ اس پیشے میں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایم ۔ اے ۔ او
کالج علی گڑھ میں فلسفے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسری پیش
کی گئی مگر اقبال نے اپنے لیے وکالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے
معذرت کرلی۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر ۱۰ مئی
۱۹۱۰ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کردیا ،
لیکن ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی ۔ ہوتے ہوتے مصروفیات بڑھتی چلی گئیں ۔
کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہوگیا۔
۱۸۔ مارچ ۱۹۱۰ء کو حیدرآبار دکن کا سفر پیش آیا ۔ وہاں اقبال کے قدیمی
دوست مولانا گرامی پہلے سے موجود تھے ۔ اس دورے میں سر اکبر حیدری اور
مہاراجاکشن پرشاد کے ساتھ دوستانہ مراسم کی بنا پڑی۔مارچ کی تئیسویں کو
حیدرآباد سے واپس آئے ۔ اورنگزیب عالمگیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے راستے
میں اورنگ آباد اُتر گئے ۔ دو دن وہاں ٹھہرے ۔ ۲۸ ۔ مارچ ۱۹۱۰ء کو لاہور
پہنچے اور پھر سے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے ۔اب معلمی اور وکالت کو
ساتھ ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جارہا تھا ۔ آخرکار ۳۱۔ دسمبر ۱۹۱۰ء کو
گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہوگئے ، مگر کسی نہ کسی حیثیت سے کالج کے ساتھ تعلق
برقرار رکھا ۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور بر صغیر کی کئی
دوسری جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہوگیا تھا ۔ پنجاب ، علی گڑھ ،
الہ آباد، ناگ پور اور دہلی یونیورسٹی کے ممتحن رہے ۔ ان کے علاوہ بیت
العلوم حیدر آباد دکن کے لیے بھی تاریخ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے ۔ بعض
اوقات زبانی امتحان لینے کے لیے علی گڑھ ، الہ آباد، ناگ پور وغیرہ بھی
جانا ہوتا ۔ ممتحن کی حیثیت سے ایک اٹل اصول اپنا رکھا تھا عزیز سے عزیز
دوست پر بھی سفارش کا دروازہ بند تھا۔
۲۔ مارچ ۱۹۱۰ء کو پنجاب یونیورسٹی کے فیلو نامزد کیے گئے ۔ لالہ رام
پرشاد ، پروفیسر تاریخ ، گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب کی ایک
کتاب ’’تاریخ ہند‘‘مرتب کی جو ۱۹۱۳ء کو چھپ کر آئی ۔ آگے چل کر مختلف اوقات
میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی ، سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے ۔
۱۹۱۹ء میں اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے ۔ ۱۹۲۳ء میں یونیورسٹی کی
تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی ، اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی میں بھی لیے گئے ۔
اپنی بے پناہ مصروفیات سے مجبور ہو کر تعلیمی کونسل سے استعفا دے دیا تھا
مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجان مینارڈ نے انھیں جانے نہ دیا ۔اس طرف
سے اتنا اصرار ہوا کہ مروتاً استعفا واپس لے لیا ۔ اس دوران میں پنجاب
ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے ۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے فارسی کی ایک نصابی
کتاب ’’آئینہ عجم‘‘مرتب کی جو ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی۔ غرض ، پنجاب یونیورسٹی
سے اقبال عملاً ۱۹۳۲ء تک متعلق رہے ۔
0 comments:
Post a Comment