Sunday, 17 March 2013

An Irrevocable Fact Of Death

Posted by Unknown on 08:47 with No comments
 موت ایک اٹل حقیقت

اکثر اوقات جب میں‌اکیلا ہوتا ہوں تو ایک عجب سی اُداسی ، ایک عجیب سا خوف ، ایک عجیب سی پریشانی ، ایک عجیب سی وحشت مجھ پہ طاری ہونے لگتی ہے کہ آخر میں‌ ہوں کیا ؟ اور کیسے اپنی زندگی کو گزار رہا ہوں۔ صبح سے شام تک آفس پھر پھر گھر پر آنا، پھر تھوڑی دیر گھر والوں اور شریک حیات کے ساتھ وقت گزارنا اور پھر تھوڑی دیر بعد سو جانا اور پھر اگلے دن اُٹھ کر وہی روٹین شروع۔ کبھی کبھی اکیلے بیٹھے ہوئے بہت رونا آتا ہے کہ میں‌نے اپنی لائف کو کیا بنا دیا ہے۔ کیا لائف کا مقصد صرف نوکری ، پیسہ ، گھر ، بنک بیلنس ، دوست ، رستے دار یا صرف ہنسی مذاق ہی رہ گیا ہے؟ اپنے آپ سے ہزاروں ‌سوال کرتا ہوں مگر جواب ایک بھی نہیں ملتا اور پھر اپنے اندر ہی اندر گھٹتا رہتا ہوں۔ کہ آخر میں‌ چاہتا کیا ہوں؟ کیا کرنا چاہتا ہوں ؟ کیا ہے میرے دل میں جو سب کو بتانا چاہتا ہوں؟ مگر آخر میں‌ یہ سوچ کر چُپ ہو جاتا ہوں‌کہ مجھے خود نہیں پتہ کہ میں‌کیا کہنا/کرنا/ اور بتانا چاہتا ہوں۔
میں صبح چھ بجے اپنے گھر سے نکلتا ہوں آفس جانے کے لیے تو اُس وقت کچھ کچھ مساجد میں اذان کی آواز آرہی ہوتی ہے۔ مجھے گھر سے اسٹیشن کا سفر موٹر سائیکل پر کرنا پڑتا ہے تو جب صبح صبح یہ سفر کر رہا ہوتا ہوں تو ہر طرف اندھیرا ہی چھایا ہوتا ہے نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ تب بھی ایک عجیب سا خوف اور ایک دل دہلا دینے والی سوچ میرے ذہن میں‌ گردش کرتی ہے کہ جتنا اندھیرا سڑکوں پر نظر آرہا ہے اس سے کہیں زیادہ اندھیرا ہماری قبروں‌ میں‌ ہو گا۔ یہ سوچنے کی دیر ہوتی ہے کہ مجھے اپنے جسم میں‌ایک عجیب سی لہر دوڑتی ہے اور جسم کانپنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مجھے ابھی کچھ ہونے والا ہے۔

اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد سفر ٹرین پر گزرتا ہے اور واپسی کا سفر بھی ٹرین پر ہی ہوتا ہے۔ ٹرین کے باہر دیکھوں یا ٹرین کے اندر ہر انسان اپنی اپنی لائف میں‌مگن نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کو جیتنے کی باتیں کرتے ہیں ، کہیں پیسے کی بات ہو رہی ہے ، کہیں‌ گھر کی تو کہیں‌گھروالوں‌کی، کہیں‌شادی کی ، کہیں‌ بیوی بچوں کی ، کہیں گاڑیاں خریدنے کی ، کہیں‌ کسی کی چغلی ہو رہی ہوتی ہے ، کہیں‌ بے حیا باتیں ، کہیں‌ مستقبل سنوارنے کی ، کہیں‌کسی کی غیبت ، کہیں‌کسی کے خلاف سازششیں ، کہیں سیاسیت کی باتیں ، کہیں ‌حکمرانوں کو گالیاں دی جارہی ہیں‌ تو کہیں‌ملک کے حالات کو لے کر ڈسکشن ہو رہی ہے۔ لیکن کہیں‌ کوئی اپنی آخرت کو لے کر بات نہیں‌کرتا ہے کہ ہم کس لیے دنیا میں‌ آئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں‌اور کیا لے کر جائیں‌گے۔ ساری انسانیت دنیا کو خوش کرنے میں‌ لگی ہوئی ہے جو کہ عارضی ہے اور اپنے رَب کو ناراض کرتے جاتے ہیں جو اس پوری دنیا کا مالک ہے۔

ہمیں‌اللہ تعالی سے ڈر کیوں نہیں‌لگتا ؟ ہمیں اُس پاک ذات کے عذاب سے ڈر کیوں نہیں‌ لگتا ؟ ہمیں اُس ہمیشہ رہنے والی سے ذات کے جلال سے ڈر کیوں‌نہیں‌ لگتا؟ ہمیں اُس دو جہانوں کے مالک سے ڈر کیوں نہیں‌ لگتا ہے جو زندگی اور موت کا مالک ہے ؟ ہمیں‌ اُس رحیم سے ڈر کیوں‌نہیں‌لگتا جو ہر حال میں‌ اپنے بندے کو معاف کر دیتا ہے اگر توبہ کرے تو ؟ ہمیں‌ اُس رحمن سے ڈر کیوں‌ نہیں لگتا ہے جو ہمیں‌ ہزار موقعے دیتا ہے دوزخ کی آگ سے بچنے کے لیے ؟ ہم یہ کیوں بھول بیٹھے ہیں کہ جس نے ہمیں‌یہ زندگی دی ہوئی ہے وہ ہمیں موت دینے کا بھی حق رکھتا ہے وہ جب چاہے کسی کو زندگی دے اور جب چاہے کسی کو موت دے دے اور یہ موت ہمیں کب کہاں اور کیسے آجائے گی یہ ہم کبھی جان نہیں‌سکتے۔ موت ایک حقیقت ہے جو جب آئے گی تو اپنے ساتھ سب بہا لے جائے گی۔ موت کسی کے کہنے پر نہیں‌ رُک سکتی (سوائے اللہ تعالی کے)۔ جس پر موت کا وقت مقرر ہے اُس کو موت اُسی وقت آئے گی نہ ایک سیکنڈ آگے نہ ایک سیکنڈ پیچھے۔

آج کل روز اپنے بارے میں‌ سوچتا ہوں کہ میں‌ نے اپنے رَب کو خوش کرنے کے یے آج تک کیا کیا ؟ یا کیا کرتا ہوں ؟ یا آگے کیا کروں گا؟ مجھے اپنی ذات پر بہت افسوس اور دُکھ ہوتا ہے کہ اپنے رَب کی عبادت اُس طرح نہیں‌کر پاتا ہوں‌ یا نہیں‌ کرتا ہوں کہ جس طرح اُس پاک ذات کی عبادت کرنے کا حق ہے۔وہ مجھے بن مانگے عطا کر رہا ہے اور میں‌ہر نعمت لے کر اُس کی ناشکری کرتا رہتاہوں۔ وہ ہر لمحے میرے ساتھ رہتا ہے جب بھی میں‌اُس کو پکاروں‌یا نہ پکاروں۔ مگر میں‌اپنے اعمال کی بدولت خود سے اپنے پیارے رَب کو دور کرتا جارہا ہوں۔ وہ مجھے ہر وقت سیدھی راہ دکھاتا ہے اور میں‌ہوں کہ گمراہی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہوں۔

میں اپنے آنے والے وقت سے ڈر لگنے لگا ہوں۔ میں اب اپنی موت سے ڈرنے لگا ہوں کہ پتہ نہیں‌‌‌ وہ مجھے کب اپنے ساتھ لے جائے گی میں سچ کہہ رہا ہوں دوستو مجھے موت سے ڈر لگنے لگا ہے۔

0 comments:

Post a Comment