بچے
ایک صاحب جو غالباً شکاری تھے اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے کہ کس طرح وہ جنگل میں چُھپتے پھر رہے تھے اور ایک شیر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ بچے طرح طرح کے سوال پوچھ رہے تھے۔
شیر کا رنگ کیسا تھا؟
آپ کی شیر سے دشمنی تھی کیا؟
شیر دُبلا تھا یا موٹا؟
آپ نے شیر کی کمر پر لٹھ کیوں نہیں مارا؟
کیا آپ ڈرپوک تھے جو شیر سے ڈر رہے تھے؟
۔۔۔۔ وہ تھوڑی سی بات کرتے اور سب بچے چلّا کر پوچھتے،
پھر کیا ہوا؟
اور ساتھ ہی بے تُکے سوالات کی بوچھاڑ ہو جاتی۔ وہ بالکل تنگ آ چکے تھے۔
ایک مرتبہ بچوں نے پھر پوچھا کہ
پھر کیا ہُوا؟
" پھر کیا ہونا تھا۔" وہ اپنے بال نوچ کر بولے۔ " پھر شیر نے مجھے کھا لیا۔"
اور بچوں نے تالیاں بجائیں۔ ہپ ہپ ہرے کیا۔ ایک ننھا اپنا ڈھول اٹھا لایا اور ساتھ ہی لکڑی کا نصف گھوڑا، جسے آری سے کاٹا گیا تھا۔ اس گھوڑے کا نام لوئی ساڑھے تین تھا۔ انہوں نے وجہ بتائی کہ پہلے انہوں نے اُسے کسی دوست کے ساتھ مل کر خریدا تھا۔ تب اس کا نام لوئی ہفتم تھا۔ دونوں دوستوں کی لڑائی ہوئی تو گھوڑے کو آری سے آدھا آدھا تقسیم کیا گیا۔ چنانچہ اس کا نام لوئی ساڑھے تین رکھ دیا گیا۔
ایک صاحب جو غالباً شکاری تھے اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے کہ کس طرح وہ جنگل میں چُھپتے پھر رہے تھے اور ایک شیر ان کا تعاقب کر رہا تھا۔ بچے طرح طرح کے سوال پوچھ رہے تھے۔
شیر کا رنگ کیسا تھا؟
آپ کی شیر سے دشمنی تھی کیا؟
شیر دُبلا تھا یا موٹا؟
آپ نے شیر کی کمر پر لٹھ کیوں نہیں مارا؟
کیا آپ ڈرپوک تھے جو شیر سے ڈر رہے تھے؟
۔۔۔۔ وہ تھوڑی سی بات کرتے اور سب بچے چلّا کر پوچھتے،
پھر کیا ہوا؟
اور ساتھ ہی بے تُکے سوالات کی بوچھاڑ ہو جاتی۔ وہ بالکل تنگ آ چکے تھے۔
ایک مرتبہ بچوں نے پھر پوچھا کہ
پھر کیا ہُوا؟
" پھر کیا ہونا تھا۔" وہ اپنے بال نوچ کر بولے۔ " پھر شیر نے مجھے کھا لیا۔"
اور بچوں نے تالیاں بجائیں۔ ہپ ہپ ہرے کیا۔ ایک ننھا اپنا ڈھول اٹھا لایا اور ساتھ ہی لکڑی کا نصف گھوڑا، جسے آری سے کاٹا گیا تھا۔ اس گھوڑے کا نام لوئی ساڑھے تین تھا۔ انہوں نے وجہ بتائی کہ پہلے انہوں نے اُسے کسی دوست کے ساتھ مل کر خریدا تھا۔ تب اس کا نام لوئی ہفتم تھا۔ دونوں دوستوں کی لڑائی ہوئی تو گھوڑے کو آری سے آدھا آدھا تقسیم کیا گیا۔ چنانچہ اس کا نام لوئی ساڑھے تین رکھ دیا گیا۔
[ از شفیق الرحمٰٰن ]
0 comments:
Post a Comment