Thursday, 21 March 2013

مائیکروسافٹ کے تعاون سے انٹرنیشنل ڈیٹا کارپوریشن (آئی ڈی سی)کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق ہر تین میں سے ایک صارف کے غیر متوقع میل ویئرسے متاثر ہونے کے امکانات ہیں اور کاروباری اداروں میں یہ امکان 10 میں سے تین ہے۔ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے صارفین میل ویئر کو پہچاننے، مرمت کرنے اور پھر بحالی پر 22 ارب ڈالرز اور 1.5 ارب گھنٹے صرف کریں گے، جبکہ عالمی کاروباری ادارے میل ویئرکے ذریعے ہونے والے سائبر حملوں کے اثر سے نمٹنے کے لیے 114 ارب ڈالرز خرچ کریں گے۔
آئی ڈی سی اسٹڈی، بعنوان “جعلی اور پائریٹڈ سافٹویئرز کی خطرناک دنیا”، مائیکروسافٹ کی “پلے اٹ سیف” مہم کے تحت آج جاری کی گئی تھی، جو سافٹویئر پائریسی کے حوالے سے مسائل کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک عالمی مہم ہے۔
عالمی تحقیق میں 270 ویب سائٹس اور پیئر-ٹو-پیئر (پی2پی) نیٹ ورکس، 108 سافٹویئر ڈاؤنلوڈز اور 155 سی ڈیز یا ڈی وی ڈیز کا جائزہ لیا اور برازیل، چین، جرمنی، بھارت، میکسیکو، پولینڈ، روس، تھائی لینڈ، برطانیہ اور امریکہ میں 2077 صارفین اور 258 آئی ٹی مینیجرز یا چیف انفارمیشن آفیسرز سے انٹرویو لیے گئے۔ تحقیق کرنے والوں نے پایا کہ جعلی سافٹویئر جو کمپیوٹر کے ساتھ نہیں آتے، 45 فیصد انٹرنیٹ سے آتے ہیں، اور ویب سائٹس یا پی 2پی نیٹ ورکس سے ڈاؤنلوڈ کیے جانے والے 78 فیصد سافٹویئرزکسی نہ کسی طرح کے اسپائی ویئر کے، جبکہ 36 فیصد ٹروجانز اور ایڈویئر کے حامل ہیں۔
مائیکروسافٹ کے کنٹری چینل لیڈ سلمان صدیقی نے کہا کہ “حقیقت یہ ہے کہ جعل ساز سافٹویئر کوڈ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہےہیں اور اسے میل ویئر سے بھر رہے ہیں۔ چند میل ویئر ایسے بھی ہیں جو فرد کے ہر کی دبانے کو ریکارڈ کرتے ہیں اور سائبر مجرموں کو اس کی ذاتی و مالی معلومات چوری کرنے کی اجازت دے رہےہیں یا دور بیٹھے متاثرہ کمپیوٹر کے مائيکروفون اور وڈیو کیمرے کا کنٹرول دے رہےہیں یعنی وہ بورڈ رومز یا نشستی کمروں میں ان مجرموں کو آنکھیں اور کان عطا کر رہے ہیں۔ ‘پلے اٹ سیف’ مہم کے ذریعے ہم دنیا بھر کے خصوصاً پاکستان کے صارفین اور کاروباری اداروں کو یاد دہانی کروا رہے ہیں کہ حفاظتی راہ اختیار کریں اور خریدنے والی مصنوعات کے بارے میں تحقیق کریں۔” انہوں نے مزید کہا کہ “خود کو اور اپنی املاک کو ان میل ویئر خطرات سے محفوظ بنانےکا سب سے مناسب طریقہ یہ ہے کہ کمپیوٹر خریدتے وقت آپ جینوئن یعنی مستند سافٹویئر کا مطالبہ کریں۔”
تحقیق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےپاکستان سافٹویئر ہاؤس ایسوسی ایشن فار آئی ٹی اینڈ آئی ٹی ای ایس (P@SHA) کے سیکرٹری جنرل سلطان ہمدانی نے کہا کہ “پاشا مائیکرو سافٹ کی عالمی “پلے اٹ سیف” جیسی مہمات کی بھرپور حمایت کرتا ہے جن کا مقصد پاکستان میں سافٹویئر پائریسی کے بارے میں شعور کو اجاگر کرنا اور جعلی سافٹویئر کے استعمال کی صورت میں پاکستانی صارفین اور کاروباری اداروں کو درپیش سیکورٹی خطرات کو نمایاں کرنا ہے۔”
صارفین سے کیے گئے سروے کی چند جھلکیاں درج ذیل ہیں:
  • جواب دینے والے چونسٹھ فیصد افراد جانتے تھے کہ کس نے جعلی سافٹویئر استعمال کرتےہوئے سیکورٹی مسائل کا سامنا کیا۔
  • پینتالیس فیصد مرتبہ جعلی سافٹویئر نے ان کے پی سیز کی رفتار سست کر دی اور سافٹویئر کو اَن انسٹال کرنا پڑا۔
  • جواب دینے والے اڑتالیس فیصد افراد نے جعلی سافٹویئر استعمال کرتے ہوئے ان کی سب سے بڑی تشویش ڈیٹا کا نقصان تھا۔
  • انتیس فیصد افراد اپنی شناخت کی چوری کے حوالے سے تشویش میں مبتلا تھے۔
آئی ڈی سی کا قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) نے صارفین کی کارپوریٹ کمپیوٹرز کی جانے والی سافٹویئر انسٹالیشن کے حیران کن رحجان کو بھی تلاش کیا، جو کام کے ماحول میں غیر محفوظ سافٹویئر کے داخل ہونے کے ایک اور طریقے کو ظاہر کر رہا ہے۔
گو کہ 38 فیصد آئی ٹی مینیجرز نے تسلیم کیا کہ ایسا ہوتا ہے، 57 فیصد ملازمین نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ادارے کے کمپیوٹرزپر ذاتی سافٹویئر انسٹال کیا۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ جواب دینے والے افراد نے آئی ڈی سی کو بتایا کہ دفتری کمپیوٹروں میں انسٹال کیے گئے محض 30 فیصد سافٹویئرز میں مسائل نہیں آتے۔ ہو سکتا ہے کہ کئی ادارے نیٹ ورک کو محفوظ بنانے کے لیے صارف کے انسٹال کردہ سافٹویئر کی جانب توجہ ہی نہ دیتے ہوں۔

0 comments:

Post a Comment