Wednesday 6 March 2013


سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسندیدہ غذائیں
==========================

تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات شریفہ میں بہت تھوڑا کھانا کھایا اور بعض دفعہ کئی کئی روز کے روزے جن کو صوم وصال کہا جاتا ہے، رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی زیادہ پیٹ بھر کر کھانا تناول نہ فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ ہم کبھی پورا مہینہ آگ نہیں جلاتے تھے۔ ہمارا کھانا صرف پانی اور کھجوریں ہوتا تھا مگر یہ کہ کہیں سے تھوڑا سا پکا ہوا گوشت آ جاتا۔ (بخاری شریف، مسلم شریف)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام عمر بھر کبھی جو کی روٹی سے بھی مسلسل دو یوم میں پیٹ نہیں بھرا۔ (ترمذی شریف)
ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں اور اس جیسی بہت سی دیگر روایات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہان فانی کے خورد ونوش کو کوئی اہمیت نہ دیتے تھے ورنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو تہامہ کے پہاڑ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سونے کے بنا دئیے جاتے۔
 (الحدیث)
بہرحال تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخصوص غذاؤں کا تکلف نہ فرماتے تھے بلکہ اہل مدینہ کی عام روش کے مطابق جو کچھ حاضر ہوتا، مثلاً گوشت، ترکاری، پھل، روغن زیتون، شہد، کھجور وغیرہ تناول فرما لیتے تھے۔

گوشت

====

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گوشت بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گوشت کو کھانوں کا سردار فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شوربے والا اور بھنا ہوا گوشت بھی شوق سے تناول فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر بھنا ہوا گوشت کھایا۔
 (شمائل ترمذی)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک بار حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی خدمت اقدس میں ایک عورت نے دو چپاتیاں اور تھوڑا سا گوشت پکا ہوا ہدیۃً پیش کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے پیالے میں رکھ کر کسی چیز سے ڈھانپ دیا اور تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیغام بھیجا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تو وہ گوشت اور روٹی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت سیدۃ النساء رضی اللہ تعالٰی عنہا حیران رہ گئیں اور سمجھ گئیں کہ یہ اللہ عزوجل کی طرف سے برکت ہے۔
تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “اے فاطمہ! تمہارے پاس یہ کہاں سے آیا ؟“ تو انہوں نے عرض کیا۔

ھو من عنداللہ ان اللہ یرزق من یشآء بغیر حساب ط
“یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے۔ بیشک اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “پیاری بیٹی! اللہ تعالٰی نے تجھے حضرت مریم علیہا السلام کے مشابہ بنایا ہے۔ ان کی بھی یہی کیفیت تھی کہ جب کوئی ان سے پوچھتا کہ یہ شے کہاں سے آئی ہے تو وہ یہی جواب دیتیں۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی المرتضٰی، حضرت فاطمہ الزہرا، حضرت امام حسن، حضرت امام حسین اور تمام ازواج مطہرات رضی اللہ تعالٰی عنہم نے وہ گوشت اور روٹی سیر ہوکر تناول فرمائی مگر پیالہ میں گوشت اور روٹی بدستور موجود رہا۔ پھر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا نے وہ کھانا ہمسایوں میں تقسیم فرمایا۔ اللہ تعالٰی نے اس کھانے میں خیر کثیر اور برکت عطا فرمائی۔
(خصائص الکبرٰی خبر ثانی)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرغ، ٹڈی، حبارٰی، مچھلی، قدید کا گوشت تناول فرمایا۔ ایک روایت کے مطابق خرگوش کا گوشت قبول فرمایا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ تناول فرما لیا۔

اصطلاحات:۔ 
 ٹڈی ایک اڑنے والا چھوٹا سا جانور ہے اور غول در غول آیا کرتا ہے۔ جب یہ آتا ہے تو سرسبز و شاداب فصلوں اور درختوں کے پتوں کو چٹ کر جاتا ہے۔ عموماً اسے ٹڈی دل کیا جاتا ہے۔ ابابیل (پرندہ) اس کا سخت دشمن ہے۔
کتاب المفردات میں لکھا ہے کہ اس کا مزاج گرم خشک ہے۔ یہ مقوی باہ اور غلیظ اخلاط کا مصفی ہے۔ پیپھڑوں کے بیرونی پردوں کے امراض اور جذام کو مفید ہے۔ روغں زیتون میں پکا کر کھانے سے وجع المفاصل (جوڑوں کے درد) کو فائدہ بخش ہے۔

حبارٰی:۔ حبارٰی کے معنی میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ کسی نے بھٹ تیتر، کسی نے بٹیر اور کسی نے “چرز“ اس کا ترجمہ فرمایا۔ “مصباح اللغات“ نے اس کا ترجمہ سرخاب تحریر کیا۔

قدید:۔ قدید، خشک کیا ہوا گوشت، جسے پانی میں بھگو کر پکا پکایا جاتا ہے۔

(1) ثرید :۔ 
ثرید اہل عرب کے نزدیک ایک بہترین کھانا خیال کیا جاتا تھا۔ خود تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثرید کو بڑی چاہت سے تناول فرماتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محبوب ترین کھانا روٹی کا ثرید اور (حیس) کا ثرید تھا۔ (ابو داؤد شریف)
ثرید کی پسندیدگی کا اندازہ ترمذی شریف کی اس روایت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔ (شمائل ترمذی)
ثرید خبز جو یا گندم کی روٹی کو گوشت کے شوربے میں پکانا یا گوشت کے شوربے میں روٹی توڑ کر بھگونا تاکہ اچھی طرح گل جائے ثرید کہلاتا ہے۔
اور ثرید (حیس) کھجور، گھی اور روٹی سے تیار کیا جاتا ہے۔ (مدارج النبوۃ)

(2) کدو :۔

=======

حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سبزیوں میں کدو بہت پسند تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے کھانا تیار کیا اور دعوت دی۔ میں بھی ساتھ ہی تھا۔ اس درزی نے جو کی روٹی اور شوربہ پیش خدمت کیا جس میں کدو اور خشک گوشت کے ٹکڑے تھے۔ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ پیالے کے کناروں سے کدو تلاش فرما کر تناول فرما رہے تھے۔ میں اس روز کے بعد ہمیشہ کدو کو پسند کرنے لگا۔
 (بخاری، مسلم، ترمذی)
حضرت جابر بن طارق رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں، میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ کدو کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے جا رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ان کا کیا بنے گا ؟ فرمایا۔ سالن میں اضافہ کیا جائے گا۔ (ترمذی شریف)
کدو عقل کو تیز کرتا اور دل و دماغ کو قوت دیتا ہے۔
 (حاشیہ شمائل ترمذی)
کتاب المفردات میں ہے کہ اس کا مزاج سرد تر ہوتا ہے۔ تپ دق کے مریض کے لئے اس سے بہتر کوئی غذا نہیں۔ زیادہ کدو کھانے والا سل سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کے بیجوں کا تیل دماغ کی خشکی دور کرکے نیند لاتا ہے۔ لغث الدم (خون تھوکنا) صفراوی بخار اندرونی اعضاء کے جریان خون اور مرض سل و دق میں بھبلائے ہوئے کدو کا پانی پلانا بڑا نافع ہے۔ کدو کی بیل پر مکھی نہیں بیٹھتی۔

(3) سرکہ :۔

=======

حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف سرکہ تناول فرمایا بلکہ اس کی تعریف بھی فرمائی۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا راوی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “سرکہ بھی کیسا بہترین سالن ہے۔“ (ترمذی شریف)
حضرت اُم ہانی رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ “کیا تیرے پاس کھانے کیلئے کوئی شے ہے ؟“ میں نے عرض کیا کہ “سوکھی ہوئی روٹی اور سرکہ کے سوا کچھ نہیں۔“ حضور تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، “وہی لے آؤ۔ وہ گھر سالن سے خالی نہیں جس گھر میں سرکہ ہو۔“ (شمائل ترمذی)
مجموعی اعتبار سے سرکہ حسب ذیل فوائد کا حامل ہے۔
غذا کو ہضم کرتا اور پیاس کو ختم کرتا ہے۔ قے، متلی اور سوء ہضم میں اس کا استعمال مفید ہے۔ موسم برسات میں اس کا استعمال انتہائی مفید ہے۔ یہ اسہال اور ہیضہ کے جراثیموں کو ختم کرتا ہے۔ ملیریا یا دیگر امراض میں جب تلی بڑھ جائے تو انجیر سرکہ میں بھگو کر چند رو استعمال کرنا انتہائی نافع ہے۔ سرکہ دافع قبض اور جراثیم کش ہونے کے سبب پھپھوندی سے ہونے والی تمام سوزشوں میں مفید ہے۔

(4) روٹی :۔

=======

حضور تاجدار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اکثر جو کی روٹی تناول فرمائی اور کبھی کبھی گندم کی بھی مگر کبھی بھی میدہ کی روٹی (جیسے پوری یا کلچہ وغیرہ) تناول نہ فرمائی۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے دریافت کیا کہ کیا کبھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدہ کی روٹی تناول فرمائی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اخیر عمر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کبھی میدہ پیش ہی نہیں کیا گیا۔ پھر سائل نے پوچھا کہ اس زمانہ میں چھننیاں تھیں؟
حضرت سہل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ نہیں۔ سائل نے پوچھا کہ پھر جو کی روٹی کیسے پکاتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ جو کے آٹے میں پھونک مار لیا کرتے تھے جو موٹے موٹے تنکے ہوتے، اڑ جاتے، باقی گوندھ کر روٹی پکا لیتے تھے۔
 (بخاری شریف، شمائل ترمذی، مشکوٰۃ باب کتاب الاطعمہ)
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور عالم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کی روٹی کا ٹکڑا لیا اور اس پر کھجور رکھی اور فرمایا۔ “یہ اس کا سالن ہے۔“ اور روٹی کو کھجور کے ساتھ تناول فرما لیا۔
 (ابو داود، مشکوٰۃ، ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا۔ اگر خواہش ہوتی تو تناول فرما لیتے۔ اگر ناپسند سمجھتے تو چھوڑ دیتے
 (صحیح بخاری و مسلم شریف)

(5):۔ گھی، مکھن، پنیر :۔
==============
بنی بسر سلیمن سے مروی ہے کہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تناول فرمانے کیلئے مکھن اور کھجوریں پیش کیں کیونکہ حضور شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکھن اور کھجوروں کو پسند فرماتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے سرکار ابد قرار، شافع روز شمار، حبیب پروردگار جناب احمد مختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک مرتبہ پنیر تناول فرما کر وضو فرماتے ہوئے دیکھا۔ پھر ایک دفعہ دیکھا کہ بکری کا شانہ تناول فرما رہے تھے لیکن وضو نہیں فرمایا۔ (ترمذی شریف)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں پنیر کا ایک ٹکڑا لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بسم اللہ شریف پڑھ کر (تناول فرمانے کیلئے) اسے کاٹا۔
 (سنن ابو داؤد، مشکوٰۃ شریف)
حضرت ام اوس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ میں نے گھی گرم کرکے ایک برتن میں بھرلیا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ہدیۃً پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرمالیا اور برتن میں تھوڑا سا گھی چھوڑ کر پھونک ماری اور برکت کی دعاء فرما دی اور اصحاب سے فرمایا کہ اوس کا برتن واپس کر دو۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے ام اوس رضی اللہ تعالٰی عنہا کا برتن واپس کیا تو وہ گھی سے بھرا ہوا تھا۔ حضرت ام اوس رضی اللہ تعالٰی عنہا نے خیال کیا کہ شاید حضور تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھی قبول نہیں فرمایا۔
حضرت ام اوس رضی اللہ عنہا رونے کے انداز میں بات کرتی ہوئی حاضر ہوئیں اور عرض کرنے لگیں۔ “یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے گھی اس لئے گرم کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تناول فرمائیں گے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ام اوس رضی اللہ عنہا کی بات سے سمجھ گئے کہ دعاء قبول ہوگئی ہے اور برتن گھی سے بھر گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ام اوس سے کہہ دو کہ ہم نے گھی قبول فرما لیا ہے اور تناول بھی فرما لیا ہے۔ اب خود یہ گھی کھائیں۔ ام اوس رضی اللہ تعالٰی عنہا نے وہ گھی حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارکہ کے بعد حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہم کے زمانہ خلافت تک کھایا۔ اس برتن سے مسلسل گھی نکلتا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا جھگڑا ہوا یعنی اس وقت برکت جاتی رہی اور گھی ختم ہو گیا۔
 (خصائص کبرٰی، جلد ثانی)

0 comments:

Post a Comment