Friday 8 March 2013

Hajj Applications And Calls

Posted by Unknown on 23:10 with No comments

 "حج کی درخواستیں اور بلاوے"

تقریباً چار برس پیشتر یہی دن تھے جب میں جی ٹی روڈ پر سفرکرتا لاہور کی جانب آرہا تھا مریدکے میں داخل ہوا تو حسب توقع وہاں ہجوم اورٹریفک کا گھنا پن زیادہ تھا چنانچہ کار کی رفتار آہستہ کرلی… دائیں جانب دکانوں اور دفتروں کا ایک سلسلہ تھا اوروہاں کوئی بینک تھا جس کے باہر’’ حج کے لئے درخواستیں یہاں وصول کی جاتی ہیں‘‘ کا بینر لکھا نظر آیا، اس بینر کی عبارت پڑھ کر میرے بدن میں ایک عجیب سے اضطراب نے جنم لیا کہ اچھا تو یہاں حج کے لئے درخواستیں وصول کی جاتی ہیں یعنی آپ اس بینک کے اندر جاؤ‘ فارم وغیرہ بھرو‘ رقم جمع کراؤ تو آپ قانونی طورپرحج کے امیدواروں کی قطار میں کھڑے ہوگئے،

یہ کیسی مسرت انگیز کیفیت ہوگی کہ کوئی آپ کو پکارے گا یاکسی فہرست میں آپ کا نام ہوگا کہ آپ کی درخواست قبول ہوگئی…چلئے جناب حج پر جایئے اور مزے کیجئے… لاہور تک میں دل ہی دل میں اس اضطراب کا جواز تلاش کرتا رہا‘ ایسے بینرتو مدتوں سے بینکوں کے باہر نظر آتے رہے ہیں تب تو کچھ اثر نہ ہوتا تھا‘ پڑھتے تھے اور آگے بڑھ جاتے تھے تواس بار کیا ہوا ہے…اور اس کا جواز یہی تھا کہ تب مجھے حج کرنے کی سعادت نصیب نہ ہوئی تھی اس لئے میں تو اس خمارسے واقف ہی نہ تھا…اب ایک بار اس کا لطف اٹھایا ہے تو پتہ چلا کہ اس جیسا بے مثال تجربہ تو صرف نصیب والوں کی قسمت میں ہوتا ہے،

ان دنوں بھی ہر جانب حج کے چرچے ہیں‘ بینکوں کے باہر بینر لگے ہیں اور اخباروں میں اشتہار شائع ہو رہے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ انسان اگر ایک بار حج کر آئے تو پھر واپسی پر دوبارہ جانے کی تمنا کروٹیں لیتی رہتی ہے‘ اگر چہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں بہتر تو یہی ہے کہ انسان ایک بار حج پر جائے تا کہ آپ کے بعد میں دوسرے لوگوں کو بھی موقع ملے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ بہر صورت دوبارہ حاضری دے‘ چنانچہ ان دنوں بھی میں کچھ اضطراب میں رہتا ہوں کہ دیکھو لوگ حج کیلئے درخواستیں دے رہے ہیں تم بھی دے ڈالو شائد پھر سے بلاوا آجائے… اگر چہ کہا تو یہی جاتاہے کہ ’’ بلاوا‘‘ آتاہے‘ جس کی قسمت میں ہو اسے بلا لیا جاتا ہے لیکن میں مکمل طورپر اس سے اتفاق نہیں کرتا…

بے شک مالک اور مختار وہی ہے بلاتا وہی ہے لیکن ہمارے متمول افراد میں حج پرجانے کارواج چل نکلا ہے‘ اور بڑے فخر سے اوراس میں قدرے تکبر بھی ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ پچھلے بیس برس سے یا تو حج کے لئے بلاوا آ جاتا ہے اور اگر ان دنوں فرصت نہ ہو تو عمرے کی ادائیگی بہر طور ہوتی ہے تو یہ حضرات اپنے بلاوے کا ذاتی طور پر بندوبست کر لیتے ہیں جب کہ ہمارے آس پاس سینکڑوں لوگ ہیں جو ان سے کہیں بڑھ کر رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں‘ صابراور شاکر ہیں لیکن ان کے ذرائع آمدنی اتنے قلیل ہوتے ہیں کہ مشکل سے گزارہ ہوتا ہے اور وہ شدید چاہت رکھنے کے باوجود حج پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تو ان کا بلاوا مشکل ہو جاتا ہے ویسے کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ خواہش بھی موجود تھی‘ وسائل بھی موجود تھے لیکن حج کرنے کی سعادت حاصل نہ ہوئی…

علامہ اقبال کی مثال ہی کافی ہے لیکن کہیں نہ کہیں کنڈی بہر طور ہلتی ہے…کچھ نہ کچھ اوپر سے بھی بندوبست ہوتا ہے اگر آپ صدق دل سے حج کی نیت کرلیں‘ کیونکہ حج صرف نیت ہے… جن دنوں ہوائی سفر کم کم تھا تو بحری جہازوں کے ذریعے لوگ حج پر جایا کرتے تھے‘ ان دنوں ایک اماں جی حج کی نیت سے گھرسے نکلیں‘ بندرگاہ پر پہنچیں تو وہاں کسی ایسے ضرورت مند سے ملاقات ہوگئی جس کے گھر میں فاقوں کی نوبت پہنچ چکی تھی تواماں جی نے حج کی رقم اس کے سپرد کی اور گھرواپس چلی گئیں… تب شرعی طورپر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ چونکہ وہ گھر سے حج کی نیت کرکے نکلی تھیں اس لئے ان کا حج ہوگیا،

ایک اور روایت ہے کہ حج کے بعد خانہ کعبہ میں چند پہنچے ہوئے اللہ والوں کی نشست ہوئی اور ان میں سے ایک نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ اس بار دمشق کے فلاں موچی کا حج اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے افضل ٹھہرا ہے تو وہ سب بزرگ دمشق پہنچے اس موچی کا کھوج لگایا اور کیا دیکھتے ہیں اس کا گھر اور اس کا پیراہن افلاس کی تصویر ہیں…بزرگوں نے اسے مبارک دی کہ اس بار تم وہ خوش قسمت ہو جس کا حج سب سے افضل ٹھہرا ہے تو موچی نے آبدیدہ ہوکر کہا کہ حضور میں تو حج کرنے کے لئے گیا ہی نہیں تو میرا حج کیسے افضل ٹھہر سکتا ہے

ان بزرگوں نے کہا کہ یہ اطلاع تو اوپر سے آئی ہے‘ تم نے کچھ نہ کچھ تو کیا ہوگا‘ ذرا سوچو…تو وہ موچی کہنے لگا کہ میں نے زندگی بھر فاقے کاٹ کر حسرت میں دن بسر کرکے حج کے لئے رقم جمع کرلی اور اس برس میری نیت تھی کہ میں حج پر جاؤں ایک شام پڑوس کے صحن سے بھنے ہوئے گوشت کی ایسی خوشبو آئی کہ میں گوشت کھانے کے لئے دیوانہ سا ہوگیا… میں نے اپنی گھر والی سے کہا کہ نیک بخت اس حج کے لئے جمع کردہ رقم میں سے کچھ سکے نکال تاکہ میں بازار سے تھوڑا سا گوشت خرید لاؤں‘ میں بھنا ہوا گوشت کھانے کیلئے مرا جاتا ہوں تو اس نے کہا کہ حج کی رقم کو ہاتھ لگانا مناسب نہیں‘ کیا پتہ دوبارہ جمع کرسکو یا نہیں،

تم اگر اتنے ہی بے چین ہوئے جاتے ہو تو پڑوسیوں کے ہاں جاکر ان سے تھوڑا سا گوشت مانگ لو کہ ہمارے درمیان لین دین چلتا رہتا ہے…میں ایک برتن تھام کر ان کے ہاں گیا تو صحن میں چولہے پر ہانڈی چڑھی تھی جس میں سے بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو آرہی تھی…میں نے پڑوسی سے درخواست کی کہ ایک آدھ بوٹی عنایت کر دیجئے تو وہ آبدیدہ ہوکر بولا…میں آپ کی یہ فرمائش پوری نہیں کر سکتا کیونکہ یہ گوشت میرے لئے تو حلال ہے لیکن آپ کے لئے حرام ہے

گھرمیں کئی روز سے فاقہ تھا بالآخر جب بچے تڑپنے لگے قریب المرگ ہوئے تو میں شہر سے باہر گیا اور ایک مردہ جانور کا گوشت کاٹ کر لے آیا کہ مجبوری میں یہ جائز ہوتا ہے… میں نے جب اپنے پڑوسی کی یہ روداد سنی تو میرا دل بھر آیا اور میں نے حج کے لئے جمع رقم اس کے سپرد کر دی کہ اس سے اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرو‘ میں زندگی رہی تو پھرکبھی حج پر چلا جاؤں گا… تو اے میرے محترم بزرگو میں تو اس برس حج پر گیا ہی نہیں تو جانے کیسے میرا حج سب سے افضل ٹھہر گیا… ان اللہ کے نیک بندوں نے اس غریب موچی کے ہاتھ چومے کہ تو گھر بیٹھے اللہ کی نگاہ میں ہم سے کہیں برتر ہوگیا ہے۔

( مستنصر حسین تارڑ)

0 comments:

Post a Comment