Sunday, 17 March 2013

Our Problems

Posted by Unknown on 00:43 with No comments
ہمارے مسائل

ہماری قوم کے بڑوں نے راستی کو بھلا دیا اور جھگڑے کو اس کی حدوں سے بڑھا دیا۔
ہمارے خواب اور ہماری خواہشیں ، اقتدار کے سموں سے روندی گئیں اور ہماری خوشیاں حب جاہ کی چکی میں باریک پیسی گئیں۔
ہمارے ایوانوں میں دانائی ترک ہوئی اور فراست پسپا۔
الزام کی دلدل نے ہمیں نگلا اور بہتان کی پچھل پاءی نے اپنوں کے خلاف زہر اگلا۔
قوموں کےدرمیان ہم پراگندہ ہوئے اور ہمسایوں کی ملامت نے ہمارا پیچھا کیا۔
چاروں طرف سے ہم پر دشنام کے تیر برستے ہیں اور ہم دل جوئی کے چند بولوں کو ترستے ہیں۔
ہم مصیبت کے ٹاٹ پر بیٹھے اور پشیمانی کی خاک ہم نےاپنے سروں پر ڈالی۔
اپنے بڑوں کی طرف ہم نےدیکھا اور چاہا کہ وہ اپنی پر نخوت انا کے زرہ بکتر اتاریں اور عجز و انکساری کا لبادہ پہنیں۔
ہم نے چاہا کہ وہ حاکمیت کے چوک میں کھڑے ہوں تو ان کے ہاتھوں میں انسان پرستی اورخرد دوستی کا نصاب ہو اور آنکھوں میں عدل و انصاف کے خواب۔
وائے ہو ان پر جنہوں نے ہماری خواہشوں کو ببول کےکانٹوں پر بچھایا اور ہمارے خوابوں کو خزاں کے سپرد کیا۔
وائے ہو ان پر جنہوں نے بردباری کا ذخیرہ دریا برد کیا اور تحمل کے کھلیان کو آگ لگائی۔
ایسا کیوں ہوا لوگو! کہ تم ہر وہ مسلط کئے گئے جو مسلط کئے گئے ؟
یاد کرو لوگو! کہ تاریخ محکوموں کے اعمال کے مطابق ہی ان کے حاکم منتخب کرتی ہے ، سو محض اپنے سر دھروں کو برا مت کہو، اپنے کئے ہوئے کو اپنے ایمان کی میزان پر تولو۔
اے لوگو ! زمانہ ان ہی سے منہ پھیرتا ہے جو خود سے منہ پھیریں۔
تاریخ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ قوموں اور گروہوں کو ان کے حق سے کم کرتی ہے اور نہ زیادہ۔
جغرافیہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ان ہی سے روٹھتا ہے جو اپنے دریاؤں ، پہاڑوں، سمندروں، کھیتوں، کھلیانوں بستیوں اور بنوں، باغوں اور باغیچوں کی نگہداری نہیں کرتے۔
ہم نے جھوٹ کی بیساکھیوں سے دنیا میں اپنا قامت بڑھانے کی کوشش کی اور منہ کے بل گرے۔
ہم نے اپنے جغرافیے کو مال غنیمت جانا اور اس سے محض سمیٹنے کو اپنا حق سمجھا۔
آج ہم اپنے حال پر زاروقطار روتے ہیں اور اپنی بد بختیوں کی ذمے داری کبھی تاریخ، کبھی جغرافیہ، کبھی دوستوں اور کبھی دشمنوں کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔
حقائق کا آئینہ ہمارے سامنے ہے لیکن ہم اس سے روبرو نہیں ہوتے کبھی ہم اس کے سامنے تو ہوں ، اس میں اپنی صورت تو دیکھیں۔
ہم کبھی اپنی تاریخ میں قریب اور بعید کی غلطیوں پر نظر تو کریں، کبھی اپنے جغرافیے سے پوچھیں تو سہی کہ اس نے ہمارے ہاتھوں کتنے زخم اٹھائے ہیں۔
ہم ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جنہیں دوسروں سے حساب فہمی کا عارضہ ہے، ہم کبھی اپنا حساب بھی دیں، اپنے نامہ اعمال پر ایک نظر تو ڈالیں۔
تب ہی ہم اس کے اہل ٹھہریں گے کہ اپنے نادان اور ناعاقبت اندیش بڑوں سے کہہ سکیں کہ انہوں نے راستی کو بھلا دیا اور جگھڑے کو اس کی حدوں بڑھا دیا۔
لیکن عزیزوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ پھر اس کی نوبت ہی کیوں آئے گی ؟
تم حیران و سرگرداں ہو، میرے اس جملے پر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ !
شاید تمہیں یاد نہیں رہا ، ابھی چند ساعتوں پہلے میں نے تم سے کہا تھا کہ تاریخ محکوموں کے اعمال کے مطابق ہی انکے حاکم منتخب کرتی ہے!
کیا واقعی ، تم اب بھی نہیں سمجھے کہ میں تمہیں کیا سمجھا رہا ہوں ۔

(جون ایلیا)

0 comments:

Post a Comment