Saturday 9 March 2013

Sahaabah Karam Zindabad

Posted by Unknown on 21:44 with No comments
حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ دورِفاروقی میں مدائن کی فتح کے بعد حضرت عمررضی ﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں مال غنیمت جمع کر کے تقسیم کرنا شروع کیا۔ حضرت حسن رضی ﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں ایک ہزار درہم نذر کیے۔ پھر حضرت حسین رضی ﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں بھی ایک ہزار درہم پیش کیے۔ پھر آپ کے صاحبزادے عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ آئے تو انہیں پانچ سودرہم دیے۔ انہوں نے عرض کی‘ اے امیرالمٔومنین ! جب میں عہد رسالت میں جہاد کیا کرتا تھا اس وقت حسن و حسین بچے تھے۔ جبکہ آپ نے انہیں ہزار ہزار اور مجھے پانچ سو درہم دیے ہیں۔
حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا‘ تم عمر کے بیٹے ہو جبکہ ان
کے والد علی المرتضٰی‘ والدہ فاطمۃ الزہرا‘ نانا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم‘ نانی خدیجہ الکبریٰ‘ چچا جعفر طیار‘ پھوپھی اْم ہانی‘ ماموں ابراہیم بن رسول ﷲ‘ خالہ رقیہ و ام کلثوم و زینب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں ہیں رضی ﷲ عنہم اجمعین۔ اگر تمہیں ایسی فضیلت ملتی تو تم ہزار درہم کا مطالبہ کرتے۔ یہ سن کر حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ خاموش ہو گئے۔
جب اس واقعہ کی خبر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو ہوئی تو انہوں نے فرمایا‘ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’عمر اہل جنت کے چراغ ہیں۔‘‘
حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ تک پہنچا تو آپ بعض صحابہ کے ہمراہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر تشریف لائے اور دریافت کیا‘ اے علی! کیا تم نے سنا ہے کہ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اہل جنت کا چراغ فرمایا ہے۔
حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا‘ ہاں! میں نے خود سنا ہے۔
حضرت عمررضی ﷲ عنہ نے فرمایا‘ اے علی! میری خواہش ہے کہ آپ یہ حدیث میرے لیے تحریر کردیں۔ سیدنا علی رضی ﷲ عنہ نے یہ حدیث لکھی‘
’’ یہ وہ بات ہے جس کے ضامن علی بن ابی طالب ہیں عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کے لئے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ اْن سے جبرائیل علیہ السلام نے‘ اْن سے ﷲ تعالٰی نے کہ:
ان عمر بن الخطاب سراج اھل الجنۃ۔
عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں‘‘
سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کی یہ تحریر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے لے لی اور وصیت فرمائی کہ جب میرا وصال ہو تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔ چنانچہ آپ کی شہادت کے بعد وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی۔
یہ تھی صحابہ کرام کی آپس کی محبت اور انکی شان

(ازالتہ الخفاء، الریاض النضرۃ ج ا:۲۸۲)

0 comments:

Post a Comment