حضرت عمروبن جموح رضی اللہ عنہ کا جذبہ شہادت
حضرت عمروبن جموح رضی اللہ عنہ
کے مشرف بہ اسلام ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد احد کا معرکہ پیش آیا۔ انہوں نے
اپنے تینوں بیٹوں کو دشمنان خدا سے مقابلہ کی تیاریاں کرتے ہوئے دیکھا ، وہ
انہیں صبح و شام بپھرے ہوئے شیروں کی طرح آتےجاتے دیکھتے۔ ان کے چہرے
دولت شہادت اور رضائے الٰہی کے حصول کے شوق میں جگمگا رہے تھے۔ اس صورتحال
نے ان کے اندر بھی جوش و حمیت کو برانگیختہ کردیا اور انہوں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر قیادت اپنے بیٹوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے کا
تہیہ کرلیا۔ لیکن ان کے لڑکے ان کو اس ارادے سے باز رکھنےپر متفق الرائے
ہوگئے۔ کیونکہ وہ ایک سن رسیدہ بوڑھے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاوں میں شدید
لنگ تھا اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں شرکت جہاد سے معذور
قراردیاتھا۔ ان کے بیٹوں نے ان سے کہا کہ" ابا جان! اللہ تعالیٰ نے آپ کو
معذور قراردیا ہے۔ آپ خود کو ایسی بات کا مکلف کیوں قرار دے رہے ہیں جس سے
اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیاہے" حضرت عمرو بن جموح ان کی اس بات سے سخت
ناراض ہوئے اور ان کی شکایت کرنے کے لیے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔
" اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بیٹے مجھے اس خیر سے باز رکھنا چاہتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ میں لنگڑا ہوں اور معذور ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک ہونا میرے لیے ضروری نہیں ہے۔ خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ میں اپنی اس ٹانگ سے جنت میں داخل ہوں گا"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ ذوق شوق دیکھا تو ان کے لڑکوں سے فرمایا کہ: ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کو شہادت عطا فرمائے"۔ چنانچہ لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق خاموش ہوگئے۔
جب مجاہدین کی روانگی کا وقت آیا تو حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ سے ملے اور ان سے اس طرح رخصت ہوئے جیسے انہیں لوٹ کر واپس نہیں آنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے قبلہ رو ہوکر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئے اور دعا کی۔
" خدایا مجھے شہادت کی دولت نصیب فرما۔ خدایا! مجھے ناکام اور نامراد اور شہادت سے محروم کر کے واپس نہ لوٹا"۔
پھر وہ اس شان سے میدان جہاد کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کے تینوں لڑکے اور ان کے قبیلہ بنو سلمہ کی ایک کثیرتعداد نے انہیں اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا اور جب معرکہ کارزار گرم ہوا اور مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھرڑ کر منتشر ہوگئے تو عجیب منظر دیکھنے مں آیا کہ حضرت عمروبن جموح اپنی تندرست ٹانگ سے کودتے ہوئے مسلمانوں کی اس اگلی جماعت میں شامل ہوگئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے آگے بڑھی تھی اوراس وقت تمنائے شہادت لفظوں کی شکل میں انکے لبوں پر مچل رہی تھی۔
" میں جنت کا مشتاق ہوں، میں جنت کا مشتاق ہوں"
اس وقت ان کے ایک صاحبزادے حضرت خلاد عقب سے ان کی حفاظت کر رہے تھے وہ دونوں باپ بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتےہوئے مشرکین سے برابر لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ دونوں میدان جنگ میں شہید ہوکر گرپڑے اور دونوں کی شہادت کے درمیان چند لمحات سے زیادہ کاوقفہ حائل نہیں تھا۔
جب جنگ ختم ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہداء احد کی تجہیز و تکفین کے لیے کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ " انہیں ان کے خون اور زخموں سمیت ہی دفن کردو میں ان کا گواہ ہوں" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان راہ خدا میں زخمی ہوگا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ زخموں سے اس کا خون جاری ہوگا۔ اس خون کا رنگ زعفرانی اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو کی طرح ہوگی" پھر فرمایا": عمروبن جموح کو عبداللہ کے ساتھ دفن کرنا۔یہ دونوں اس دنیا میں ایک دوسرے کے نہایت گہرے اور مخلص دوست تھے۔
اللہ تعالیٰ حضرت عمرو بن جموح اور ان کے ساتھی شہدا احد سے راضی ہو اور ان کی قبروں کو نور سے بھردے۔آمین
" اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بیٹے مجھے اس خیر سے باز رکھنا چاہتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ میں لنگڑا ہوں اور معذور ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک ہونا میرے لیے ضروری نہیں ہے۔ خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ میں اپنی اس ٹانگ سے جنت میں داخل ہوں گا"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ ذوق شوق دیکھا تو ان کے لڑکوں سے فرمایا کہ: ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کو شہادت عطا فرمائے"۔ چنانچہ لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق خاموش ہوگئے۔
جب مجاہدین کی روانگی کا وقت آیا تو حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ سے ملے اور ان سے اس طرح رخصت ہوئے جیسے انہیں لوٹ کر واپس نہیں آنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے قبلہ رو ہوکر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئے اور دعا کی۔
" خدایا مجھے شہادت کی دولت نصیب فرما۔ خدایا! مجھے ناکام اور نامراد اور شہادت سے محروم کر کے واپس نہ لوٹا"۔
پھر وہ اس شان سے میدان جہاد کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کے تینوں لڑکے اور ان کے قبیلہ بنو سلمہ کی ایک کثیرتعداد نے انہیں اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا اور جب معرکہ کارزار گرم ہوا اور مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھرڑ کر منتشر ہوگئے تو عجیب منظر دیکھنے مں آیا کہ حضرت عمروبن جموح اپنی تندرست ٹانگ سے کودتے ہوئے مسلمانوں کی اس اگلی جماعت میں شامل ہوگئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے آگے بڑھی تھی اوراس وقت تمنائے شہادت لفظوں کی شکل میں انکے لبوں پر مچل رہی تھی۔
" میں جنت کا مشتاق ہوں، میں جنت کا مشتاق ہوں"
اس وقت ان کے ایک صاحبزادے حضرت خلاد عقب سے ان کی حفاظت کر رہے تھے وہ دونوں باپ بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتےہوئے مشرکین سے برابر لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ دونوں میدان جنگ میں شہید ہوکر گرپڑے اور دونوں کی شہادت کے درمیان چند لمحات سے زیادہ کاوقفہ حائل نہیں تھا۔
جب جنگ ختم ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہداء احد کی تجہیز و تکفین کے لیے کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ " انہیں ان کے خون اور زخموں سمیت ہی دفن کردو میں ان کا گواہ ہوں" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان راہ خدا میں زخمی ہوگا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ زخموں سے اس کا خون جاری ہوگا۔ اس خون کا رنگ زعفرانی اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو کی طرح ہوگی" پھر فرمایا": عمروبن جموح کو عبداللہ کے ساتھ دفن کرنا۔یہ دونوں اس دنیا میں ایک دوسرے کے نہایت گہرے اور مخلص دوست تھے۔
اللہ تعالیٰ حضرت عمرو بن جموح اور ان کے ساتھی شہدا احد سے راضی ہو اور ان کی قبروں کو نور سے بھردے۔آمین
0 comments:
Post a Comment