میں
اور شرجیل ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے لیکن ہم دونوں کے والدین اس
رشتے سے راضی نہیں تھے- ہم دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدگی برداشت نہیں تھی-
آخرکار ہم دونوں نے وہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا جو کسی کے بھی والدین
کیلئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہوتا ہے- لیکن اسوقت ہمیں کسی چیز کی پرواہ
نہیں تھی، پرواہ تھی تو بس اپنی- میں نے اور شرجیل نے ایک دن تعین کیا اور
پھر ہم نے بھاگ کے عدالت میں جاکر شادی کر لی- کچھ دن ہم شرجیل کے دوست کے
گھر رہے پھر انھیں نوکری مل گئی تو ہم نے ایک الگ گھر کرائے پر لے لیا-
ہماری شادی کو چار ماہ ہوگئے تھے اور ان چار مہینوں میں جیسے شرجیل نے مجھے
دنیا کی ساری خوشیاں دے دی تھیں- وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے اور مجھے بہت
پیار کرتے تھے- ان مہینوں میں شرجیل نے مجھے کبھی یہ طعنہ نہیں دیا تھا کہ
میں گھر سے بھاگی تھی- شرجیل یہ جان کر بہت خوش تھے کہ وہ پاپا بننے والے
ہیں- اب تو وہ میرا اور بھی زیادہ خیال رکھنے لگے تھے- انھوں نے گھر میں
ایک نوکرانی بھی لگا دی تھی جو گھر کا سارا کام کرتی تھی-
شرجیل
کی خواہش تھی کہ ہمارے بیٹا پیدا ہو- میں کبھی کبھی سوچتی کہ میں تو اپنے
شوہر کے ساتھ بہت خوش ہوں لوگ غلط ہی کہتے ہیں کہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکیوں
کی کوئی عزت نہیں ہوتی- پھر ہمارے یہاں بیٹا پیدا ہوا، ہم دونوں ہی بہت
خوش تھے- شرجیل نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایک
بیٹے کے باپ بن گئے ہیں- شرجیل کے گھر والوں نے کہا تھا کہ وہ ہم سب کو لے
کر واپس آجائیں- یہ سن کر شرجیل بہت خوش تھے لیکن میں کچھ پریشان تھی
کیونکہ مجھے یہ ڈر تھا کہ اسکے گھر والے مجھ سے پتہ نہیں کیسا برتاؤ کریں
گے- آخرکار شرجیل کی خوشی کے آگے میں نے ہار مان لی اور ہم شرجیل کے گھر
آگئے-
یہاں
آکر میرے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے یا یہ کہنا بھی غط نہ ہوگا کہ قسمت مجھ
پر مہربان تھی کیونکہ شرجیل کے گھر والوں کا سلوک میرے ساتھ بہت اچھا تھا-
مجھے بھی یہاں ویسی ہی عزت دی جارہی تھی جیسے میری جٹھانی کو دی جاتی
تھی- مجھے واپس آئے تین سال گزر چکے تھے اور اب بھی شرجیل مجھ سے ویسے ہی
محبت کرتے تھے- ایک دن میں ہمت کرکے اپنے گھر گئی، رو رو کر اپنے والدین سے
معافی مانگی اورآخرکار انھوں نے بھی مجھے معاف کر دیا- سب یہ جان کر بہت
خوش ہوئے کہ میں اپنے گھر میں بہت خوش ہوں اور عزت سے زندگی گزار رہی ہوں-
اس
بار جب میری گود بھری تب بھی شرجیل کی یہ ہی خواہش تھی کہ لڑکا ہو- اس بار
مجھے ان کی بات کچھ عجیب محسوس ہوئی لیکن میں نے شرجیل کو کچھ ظاہر نہ
کیا- اور پھر ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی سے نوازا- میں بیٹی کو پاکر بھی
بہت خوش تھی لیکن شرجیل کچھ خوش نہ تھے- وہ بیٹی کو میرے پاس بھی رہنے نہ
دیتے تھے اور پھر انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ یہ بیٹی اپنی بہن کو دے دیں
گے- جب میں نے شرجیل سے اسکی وجہ پوچھی تو وہ سن کر تو جیسے مجھ پر قیامت
ٹوٹ پڑی- ان کا کہنا تھا کہ میں ان کی عزت ہوں اور گھر سے بھاگنے کا فیصلہ
ہم دونوں کا تھا اسلئے انھوں نے مجھے کبھی کوئی طعنہ نہ دیا لیکن کیونکہ
میں گھر سے بھاگی تھی تو میں اپنی بیٹی کو بھی ایسی ہی تربیت دونگی اور یہ
ان سے برداشت نہیں- آج مجھے شدت سے احساس ہوا کہ غلطی آخر غلطی ہوتی ہے
جسکی سزا بھگتنی ہی پڑتی ہے اور میری سزا یہ تھی کہ آج میں اپنی ہی نظروں
میں گر گئی تھی اور اب مجھے ساری زندگی اپنی بیٹی سے جدائی کا صدمہ برداشت
کرنا تھا-
0 comments:
Post a Comment