آج اسد کی سالگرہ تھی اور
سارہ اسے سالگرہ پر بہت اچھا تحفہ دینا چاہتی تھی- اس نے تمام تیاری کر لی
تھی اور اب بس اسکے گھر آنے کا انتظار کر رہی تھی- اس لئے وہ دروازے کے
ساتھ ہی بیٹھی تھی تاکہ اسد جیسے ہی آئے وہ اسے سالگرہ کی مبارکباد دے سکے-
ان کی شادی کو ایک سال گزرا
تھا اور شادی کے فورا بعد ہی اسد کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا تھا اور وہ
ایک انجان شہر چلے گئے تھے- اس انجان شہر میں سارہ ہی تھی جس کی وجہ سے وہ
یہاں ایڈجسٹ ہو پایا تھا- وہ ہر خوشی اور غم میں اس کے ساتھ تھی- سارہ نہ
صرف ایک اچھی بیوی بلکہ ایک بہت اچھی دوست بھی تھی- وہ اس کی ساری اچھی بری
عادتوں کو جانتی تھی- ایسا لگتا تھا جیسے ان کی شای کو عرصہ گزر چکا ہو-
آج شادی کے بعد اسد کی پہلی
سالگرہ تھی اور سارہ اسے یادگار بنا دینا چاہتی تھی- اس نے اسد کو کہا تھا
کہ وہ جلدی گھر آجائے- وہ اس کا انتظارکر رہی تھی کیونکہ وقت زیادہ ہوچکا
تھا- وہ بار بار اپنا موبائل بھی دیکھ رہی تھی کہ آخر کیوں دیر ہوئی- تھوڑی
ہی دیر میں اسد کا فون آیا اس نے بتایا کہ آج وہ اپنے آفس کے دوستوں کے
ساتھ سالگرہ منانے چلا گیا تھا اسلئے آفس کا کام نہیں کرسکا اور اسے لوٹنے
میں دیر ہوجائے گی-
سارہ کو اس کی بات کا برا
لگا کیونکہ اس نے بہت کچھ سوچا تھا جو سب ضائع ہو گیا تھا- اسکی آنکھیں
آنسوں سے بھر گئیں لیکن اسے ایک بات کا پتہ تھا کہ اسد اسے پیار کرتا ہے-
اس نے کھانا نہیں کھایا اور
اسکا انتظار کرنے لگی- اسکی آنکھیں مسلسل دروازے کی جانب تھیں- آخرکار 11
بجے دروازے کی گھنٹی بجی- وہ دروازے کی طرف دوڑی اور دروازہ کھول دیا- اس
نے آدھے کھلے دروازے سے اسد کو پیار سےمسکرا کر دیکھا اور اسے دیکھ کر اسد
جیسے اپنی ساری تھکاوٹ بھول گیا- وہ بھی مسکرایا- وہ اندر آیا تو اس نے
دیکھا کہ کھانے کی میز پر اس کی تمام پسندیدہ ڈشز موجود ہیں جو سارہ نے خاص
اسکے لئے بنائی تھیں-
میز پر ایک کیک بھی رکھا
تھا- اسد کو برا لگا کہ وہ جلدی نہ آسکا- اس نے سارہ سے معافی مانگی- لیکن
سارہ نے کہا کوئی بات نہیں ہمارے پاس ابھی بھی ایک گھنٹہ باقی ہے، تم جاکر
فریش ہوجاو- جب وہ اپنے کمرے میں گیا تو اس نے دیکھا کہ بیڈ پر دو گفٹ اور
ایک پیارا سا پھول رکھا ہوا ہے- اس نے ایک چھوٹا ڈبہ کھولا جس میں ایک
ایلبم تھا- اس کے پہلے صفحے پر اس کے بچپن کی تصویریں تھیں جو اسکے والدین
اور بہن بھائیوں کے ساتھ تھیں- جن سے وہ ایک سال سے نہیں ملا تھا-
اگلے صفحے پر اس کے اسکول،
کالج اور آفس کی تصویریں تھی- اسکے بعد اسکے بہترین دوست کے ساتھ اسکی
تصویر تھی جس میں نیچے اس کے دوست کی طرف سے سالگرہ کی مبارکباد تھی- وہ
حیران تھا کہ یہ سب سارہ نے کیسے کیا- اسکے بعد اسکی تصویر تھی گٹار کے
ساتھ جو وہ کالج کے دنوں میں بجاتا تھا- اسکے ساتھ ایک چابی تھی دوسرے ڈبے
کو کھولنے کے لئے اور سارہ کا میسج تھا کہ میں جانتی ہوں کہ تمہیں موسیقی
پسند ہے اور میں چاہتی ہوں کہ تم اسے جاری رکھو- اس نے دوسرا ڈبہ کھولا جس
میں گٹار تھا-
اس کی آنکھیں اب نم ہوچکی
تھیں- وہ آخری صفحے پر آیا جہاں ان کی شادی کی تصویریں تھیں اور آخری تصویر
میں اس کی پوری فیملی تھی اور اس کے اوپر سارہ نے لکھا تھا “میری فیملی”-
اسد نے نم آنکھوں سے سارہ کو دیکھا وہ دروازے کے پاس کھڑی تھی- وہ اس کے
پاس آیا اور اس کا ماتھا چوم لیا- اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا سارہ نے
اپنا آخری سرپرائز بھی دے دیا- سارہ اسے کمرے سے باہر لائی جہاں ہر کوئی
اسکا انتظار کر رہا تھا- اسد کو یقین نہیں آیا کہ اسکے والدین اسکے سامنے
کھڑے ہیں- یہ اسد کے لئے بہترین سرپرائز تھا- اسد نے سارہ کا شکریہ ادا کیا
اور اسے بتایا کہ یہ اسکی زندگی کی سب سے اچھی سالگرہ تھی-
0 comments:
Post a Comment