آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر طائف
مکہ مکرمہ میں دس سال تک لگاتار تبلیغ دین کرنے کے باوجود حالات حوصلہ افزا نہیں ہوئے ، ابوطالب جیسے مشفق چچا اور خدیجۃ الکبریٰ جیسی مہربان رفیق زندگی کے سفر آخرت سے مکہ میں تبلیغ تو الگ وہاں رہنا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے محال ہوچکا تھا چنانچہ شوال سنہ 10 نبوت کے آخر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے ۔ یہ مکے سے نجران کی جانب90 کلومیٹر دور پہاڑوں پر واقع خوشگوار آب و ہوا والا شہر ہے ۔ آپ نے یہ مسافت جاتے ہوئے پیدل طے فرمائی تھی ۔ آپ کے ہمراہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ راستے میں جس قبیلے سے بھی گزر ہوتا ۔ اسے آپ اسلام کی دعوت دیتے تھے لیکن کسی نے بھی دعوت قبول نہ کی ۔ جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے عبدیالیل ، مسعود اور حبیب ۔ آ پ نے ان تینوں کو اسلام کی مدد کرنے اور اللہ و رسول کی اطاعت کی دعوت دی ۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے گا اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو تو ۔ دوسرے نے کہا کیا اللہ کو تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ملا ؟ تیسرے نے کہا : میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا ۔ اگر تم واقعی نبی ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیئے ۔ یہ جواب سن کر آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صرف اتنا فرمایا ” تم لوگوں نے جو کچھ کیا ہے اسے اپنے تک ہی محدود رکھنا ۔
رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں دس دن قیام فرمایا ۔ اس دوران آپ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور ہرایک سے گفتگو فرمائی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمارے شہر سے نکل جاوکچھ دنوں کے بعد انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہہ دے دی ۔ چنانچہ آپ نے واپسی کاقصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے ، تالیاں پیٹتے ، اور شور مچاتے آپ کے پیچھے لگ گئے ۔ اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی ۔ پھر گالیوں اور بدزبانیوں کے ساتھ پتھر بھی چلنے لگے ۔ جس سے آپ کی ایڑیوں پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تربتر ہوگئے ۔ ادھر حضرت زید بن حارثہ ڈھال بن کر چلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے ۔ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی ۔ بدقماشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا ۔ یہاں تک کہ آپ عتبہ اور شیبہ جو ربیعہ کے بیٹے تھے کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ۔ یہ باغ طائف سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پرواقع تھا ۔ جب آپ نے یہاں پناہ لی تو بھیڑ واپس چلی گئی ۔ اور آپ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے ۔ قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے ۔ اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ طائف میں اس بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک بھی شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ کس قدر دلفگار تھے اور آپ کے احساسات پر حزن و الم اور ہم و غم کا کس قدر غلبہ تھا ۔
بار الٰہا! میں تجھ سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ پیش کرتا ہوں ۔ اے ارحم الراحمین ! تو کمزوروں کا رب ہے ۔ اور تو میرا بھی رب ہے ۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے ۔ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔ لیکن تیری عافیت کی نظر کرم میرے لیے زیادہ کشادہ ہے ۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں ” جس سے تاریکیاں روشن ہیں اور جس کی برکت سے دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوتے ہیں “ کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرنے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو ، تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں “
ابنائے ربیعہ کے باغ میںادھر آپ کو ابنائے ربیعہ نے اس حالت زار میں دیکھا تو ان کے جذبہ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے عیسائی غلام کو جس کا نام عداس تھا ، بلا کر کہا کہ اس انگور کا ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آو ۔ جب اس نے انگور آپ کی خدمت میں پیش کیے تو آپ نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اورکھانا شروع کردیا ۔ عداس نے کہا یہ جملہ تواس علاقے کے لوگ نہیں بولتے ۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہواور تمہارا دین کیا ہے ۔ اس نے کہا میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کاباشندہ ہوں ۔ آپ نے فرمایا اچھاتوتم مرد صالح یونس بن متی کی بستی کے رہنے والے ہو ۔ تو اس نے پوچھا آپ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں ؟ فرمایا وہ میرے بھائی تھے ۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں ۔ یہ سن کر عداس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک پڑا اور آپ کے سر ، ہاتھوں اورپاوں کو بوسہ دیا ۔ یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا لو : اب اس شخص نے ہمارے غلام کو بھی بگاڑ دیا ۔ اس کے بعد جب عداس واپس گیا تو دونوں نے اس سے کہا ۔ یہ کیا معاملہ تھا ۔ اس نے کہا میرے آقا روئے زمین پر اس شخص سے بہترکوئی اور نہیں ہے ۔ اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ان دونوں نے کہا ۔ دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے نہ پھیر دے ۔ کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے ۔
مکے کی طرف روانگی قدرے ٹھہر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پہر چل پڑے ۔ غم و الم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا ۔ قرن منازل پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے ۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا ۔ وہ آپ سے یہ گزارش کرنے آیا تھا کہ آپ حکم دیں تو وہ ان مجرموں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے ۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ عز وجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کردے گا ۔ جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی ۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی ۔
مکہ مکرمہ میں دس سال تک لگاتار تبلیغ دین کرنے کے باوجود حالات حوصلہ افزا نہیں ہوئے ، ابوطالب جیسے مشفق چچا اور خدیجۃ الکبریٰ جیسی مہربان رفیق زندگی کے سفر آخرت سے مکہ میں تبلیغ تو الگ وہاں رہنا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے محال ہوچکا تھا چنانچہ شوال سنہ 10 نبوت کے آخر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے ۔ یہ مکے سے نجران کی جانب90 کلومیٹر دور پہاڑوں پر واقع خوشگوار آب و ہوا والا شہر ہے ۔ آپ نے یہ مسافت جاتے ہوئے پیدل طے فرمائی تھی ۔ آپ کے ہمراہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ راستے میں جس قبیلے سے بھی گزر ہوتا ۔ اسے آپ اسلام کی دعوت دیتے تھے لیکن کسی نے بھی دعوت قبول نہ کی ۔ جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے عبدیالیل ، مسعود اور حبیب ۔ آ پ نے ان تینوں کو اسلام کی مدد کرنے اور اللہ و رسول کی اطاعت کی دعوت دی ۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے گا اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو تو ۔ دوسرے نے کہا کیا اللہ کو تمہارے علاوہ اور کوئی نہ ملا ؟ تیسرے نے کہا : میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا ۔ اگر تم واقعی نبی ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیئے ۔ یہ جواب سن کر آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صرف اتنا فرمایا ” تم لوگوں نے جو کچھ کیا ہے اسے اپنے تک ہی محدود رکھنا ۔
رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں دس دن قیام فرمایا ۔ اس دوران آپ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور ہرایک سے گفتگو فرمائی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمارے شہر سے نکل جاوکچھ دنوں کے بعد انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہہ دے دی ۔ چنانچہ آپ نے واپسی کاقصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے ، تالیاں پیٹتے ، اور شور مچاتے آپ کے پیچھے لگ گئے ۔ اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی ۔ پھر گالیوں اور بدزبانیوں کے ساتھ پتھر بھی چلنے لگے ۔ جس سے آپ کی ایڑیوں پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تربتر ہوگئے ۔ ادھر حضرت زید بن حارثہ ڈھال بن کر چلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے ۔ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی ۔ بدقماشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا ۔ یہاں تک کہ آپ عتبہ اور شیبہ جو ربیعہ کے بیٹے تھے کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا ۔ یہ باغ طائف سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پرواقع تھا ۔ جب آپ نے یہاں پناہ لی تو بھیڑ واپس چلی گئی ۔ اور آپ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے ۔ قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے ۔ اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ طائف میں اس بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک بھی شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ کس قدر دلفگار تھے اور آپ کے احساسات پر حزن و الم اور ہم و غم کا کس قدر غلبہ تھا ۔
بار الٰہا! میں تجھ سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ پیش کرتا ہوں ۔ اے ارحم الراحمین ! تو کمزوروں کا رب ہے ۔ اور تو میرا بھی رب ہے ۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے ۔ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔ لیکن تیری عافیت کی نظر کرم میرے لیے زیادہ کشادہ ہے ۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں ” جس سے تاریکیاں روشن ہیں اور جس کی برکت سے دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوتے ہیں “ کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرنے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو ، تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں “
ابنائے ربیعہ کے باغ میںادھر آپ کو ابنائے ربیعہ نے اس حالت زار میں دیکھا تو ان کے جذبہ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے عیسائی غلام کو جس کا نام عداس تھا ، بلا کر کہا کہ اس انگور کا ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آو ۔ جب اس نے انگور آپ کی خدمت میں پیش کیے تو آپ نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اورکھانا شروع کردیا ۔ عداس نے کہا یہ جملہ تواس علاقے کے لوگ نہیں بولتے ۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہواور تمہارا دین کیا ہے ۔ اس نے کہا میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کاباشندہ ہوں ۔ آپ نے فرمایا اچھاتوتم مرد صالح یونس بن متی کی بستی کے رہنے والے ہو ۔ تو اس نے پوچھا آپ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں ؟ فرمایا وہ میرے بھائی تھے ۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں ۔ یہ سن کر عداس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھک پڑا اور آپ کے سر ، ہاتھوں اورپاوں کو بوسہ دیا ۔ یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا لو : اب اس شخص نے ہمارے غلام کو بھی بگاڑ دیا ۔ اس کے بعد جب عداس واپس گیا تو دونوں نے اس سے کہا ۔ یہ کیا معاملہ تھا ۔ اس نے کہا میرے آقا روئے زمین پر اس شخص سے بہترکوئی اور نہیں ہے ۔ اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ان دونوں نے کہا ۔ دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے نہ پھیر دے ۔ کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے ۔
مکے کی طرف روانگی قدرے ٹھہر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پہر چل پڑے ۔ غم و الم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا ۔ قرن منازل پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے ۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا ۔ وہ آپ سے یہ گزارش کرنے آیا تھا کہ آپ حکم دیں تو وہ ان مجرموں کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے ۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ عز وجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کردے گا ۔ جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی ۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی ۔
0 comments:
Post a Comment