Thursday, 11 April 2013

A Prostitute's Repentance

Posted by Unknown on 06:17 with No comments
 ایک طوائف کی توبہ

حضرت سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ ہفتے میں ایک دِن جنگل میں سیر کے لیے تشریف لے جاتے تھے تو بڑے بڑے لوگ یہ حسرت کرتے تھے کہ ہمیں بھی سید صاحب کے ساتھ جانے کا موقع مل جائے۔ حضرت میاں جی نور محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک روز موقعہ مل گیا اور میں سید صاحب کے ساتھ چل پڑا۔ سید صاحب گھوڑے پر تشریف فرما تھے، خانم بازار دہلی سے گزرے، وہاں سے آگے ایک گلی سے گزرے۔ اس گلی میں ایک طوائف کا مکان تھا، وہ نہایت حسین اور پڑھی لکھی تھی اور اس گلی میں سے معمولی آدمی کا گزرنا ناممکن تھا۔گلی میں اس کا بڑا بنگلہ تھا، بڑے بڑے شہزادے اور امیرزادے اس کے بنگلے پر جاتے تھے۔ جب سید احمد شہید اس کے بنگلے سے گزرے تو وہ حسن اتفاق سے اپنے دروازے پر کھڑی تھی، زرق برق لباس میں ملبوس تھی۔ سید صاحب نے اس کی طرف نظر اُٹھائی۔ پھر کیا تھا وہ چیخ پڑی اور سید صاحب کے گھوڑے کے پیچھے دوڑ پڑی اور پیچھے یہ آواز بھی لگا رہی تھی:۔
’’اے شاہسوار! خدا کے واسطے ذرا گھوڑا روک لے۔
آپ نے گھوڑا روک لیا اور وہ بے تحاشا گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں کو لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سید صاحب بار بار فرماتے تھے کہ بی بی! سن توسہی، بات توبتلاؤ تو کون ہے اور کیوں روتی ہے؟ گھوڑے کے پاؤں چھوڑ دے اور اپنا مطلب بتا۔
وہ برابر روتی رہی اور گھوڑے کے پاؤں پکڑے ہوئے تھے۔ جب اسے رونے سے افاقہ ہوا، تو اس نے کہا کہ: جی میں توبہ کرنا چاہتی ہوں اورکچھ نہیں چاہتی۔
سید صاحب نے فرمایا: اس وقت تمہارے مکان میں بندے ہیں؟
اس نے کہا: جی ہاں۔
سید صاحب نے فرمایا: توبہ کے بعد نکاح کرے گی؟
اس نے اقرار کر لیا اور کہا کہ: جو آپ فرمائیں گے وہ کروں گی۔
اس وقت اس طوائف کے گھر میں کل دس آدمی تھے۔ فرمایا: سب کو بلا لاؤ۔ نو تو آ گئے، جس شان سے (رونے کے ساتھ) وہ طوائف آئی تھی اس شان سے وہ لوگ بھی آ گئے اور رو رو کر سب توبہ تائب ہو گئے۔
سید صاحب نے فرمایا: آپ سارے اکبری مسجد میں چلیں، میں آ رہا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد سید صاحب پہنچ گئے اور نو بندوں میں سے ایک کے ساتھ اس کی شادی ہو گئی، نکاح بھی ہو گیا۔
سید صاحب نے مسکرا کر پوچھا: بی بی! اَب کہاں جاؤ گی؟
بڑا پیارا جواب دیا، کہا کہ: خاوند کے ساتھ ان کے گھر میں جاؤں گی۔
کسی نے کہا: اپنے بنگلے پر نہیں جائے گی؟
کہا: اس بنگلے پر لعنت بھیجتی ہوں گناہ کے کاروبار سے اس کو بنایا تھا، اب اس سے نفرت ہو رہی ہے۔
یہ عورت اپنے خاوند کے ساتھ بالاکوٹ کے جہاد میں بھی گئی تھی۔ اکبری مسجد میں جو نو بندے سید صاحب سے بیعت ہوئے تھے وہ سارے شہید ہو گئے اور وہ خود مجاہدین کے گھوڑوں کی خدمت کرتی تھی، ان کے لیے چارہ بناتی تھی، حتیٰ کہ اس کے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے۔
ایک مجاہد نے ازراہِ تعجب پوچھا کہ بی بی! اُس وقت آپ خوش تھی کہ جب تمہاری خدمت کے لیے شہزادے موجود ہوتے تھے یا اَب اِس حالت میں خوش ہو کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرتی ہو؟
وہ مسکرائی اور فرمایا: سامنے جو پہاڑی کھڑی ہے، خدا کی قسم! اب میرے پاس ایمان و یقین الحمدللہ اتنا زیادہ ہے کہ اگر سامنے پہاڑی پر اپنا ایمان و یقین رکھ دوں تو ان شاء اللہ یہ پہاڑی بھی نیچے دَب جائے گی اور میرے ایمان و یقین کے بوجھ کو نہیں اُٹھا سکے گی۔ فرمایا: الحمدللہ! اَب سکون ہی سکون ہے، پہلے تو مصیبت میں ہوتی تھی۔ (ارواح ثلاثہ

0 comments:

Post a Comment